مرا مکان تو سارا ہوا 'نثار '
یعنی فلک کا کوئی ستارا ہوا 'نثار '
قدموں میں آ کے سارا زمانہ ٹھہر گیا
پہنا کبھی جو اس کا اتارا ہوا 'نثار '
بارش بھی اس زمین کو بھر پور چاہیے
شبنم سے کب گلوں کا گزارا ہوا 'نثار '
جب بھی فلک اچھال دے تارے سجا کے تھال
سمجھو یہی کہ کوئی تمہارا ہوا 'نثار '
ڈھونڈا کیا جہان میں لیکن نہیں ملا
مجھ سا کوئی نصیب کا مارا ہوا 'نثار '
دریا کا تھا قصور کہ پیاسا نہیں رکھا
پانی مگر زبان سے کھارا ہوا 'نثار '
No comments:
Post a Comment