تھک گیا ہوں میں اکیلا سا ستارہ تیرا
دور
کتنا ہے ابھی رات، کنارا تیرا
ایک
بارش ترے احسان کی کافی ہے مجھے
میں
جو پھرتا ہوں سمیٹے ہوئے گارا تیرا
آئنہ ٹوٹے گا اک روز یہ کہہ کر مجھ سے
اب نہ ہوگا کبھی دیدار دوبارہ تیرا
رات
بھر جاگتی رہتی ہے مری بے خوابی
لوٹ کر آیا نہیں خواب نظارہ تیرا
دور ہلتے ہیں کسی سایہء امید کے ہاتھ
جانے
کس دشت میں مارے گا اشارہ تیرا
افتخار
بخاری
No comments:
Post a Comment