اَبر کے
چاروں طرف باڑ لگا دی جائے۔۔"
مفت
بارِش میں نہانے پہ سزا دی جائے۔۔
سانس لینے کا بھی تاوان کیا جائے وُصول،
سب
سِڈی دُھوپ پہ کچھ اورگھٹادی جائے۔۔
رُوح گر ہے تو اُسے بیچا ، خریدا جائے،
وَرنہ
گودام سے یہ جنس ہٹا دی جائے۔۔
قہقہہ جو بھی لگائے اُسے بِل بھیجیں گے،
پیار سے دیکھنے پہ پرچی تھما دی جائے۔۔
تجزیہ کر کے بتاؤ کہ منافع کیا ہو،
بوندا باندی کی اَگر بولی چڑھا دی جائے۔۔
آئینہ
دیکھنے پہ دُگنا کرایہ ہو گا،
بات
یہ پہلے مسافر کو بتادی جائے۔۔
تتلیوں کا جو تعاقب کرے چالان بھرے،
زُلف میں پھول سجانے پہ سزا دی جائے۔۔
یہ
اَگر پیشہ ہے تواِس میں رِعایت کیوں ہو،
بھیک لینے پہ بھی اَب چُنگی لگا دی جائے۔۔
کون
اِنسان ہے کھاتوں سے یہ معلوم کرو،
بے لگانوں کی تو بستی ہی جلا دی جائے۔۔
حاکمِ وَقت سے قزاقوں نے سیکھا ہوگا،
باج نہ ملتا ہو تو گولی چلا دی جائے۔۔
کچی مِٹّی کی مہک مفت طلب کرتا ہے،
قیس
کو دَشت کی تصویر دِکھا دی جائے"۔
No comments:
Post a Comment