کبھی بارش کبھی آنکھوں میں دہواں ہوتا تھا
اس طرح ہجر خیالوں میں رواں ہوتا تھا
کوئی
دیوار نہ دوڑی مرے آگے پیچھے
میرے کہنے پہ کبھی دشت رواں ہوتا تھا
تیری آنکھوں میں کوئی عکس نہ ابھرا
جس کا اک جزیرہ مرے خوابوں کا جہاں ہوتا
تھا
ایک بوڑھے سے شجر پر کہیں لکھا ہوگا
نام تیرا جو کبھی وردِ زباں ہوتا تھا
تو نہیں ہوتا تھا اطراف میں گرچہ میرے
تیرے ہونے کا مگر مجھ کو گماں ہوتا تھا
کشتیاں چھیننے والا تو ابھی زندہ ہے
وہ
کوئی اور ہے جو عبرت کا نشاں ہوتا تھا
ایسی بستی سے گزرنا بھی پڑا ہے ہم کو
جس کے ہر کوچے میں غوغائے سگاں ہوتا تھا
ہر طرف واعظ و مفتی کا اندیشہ اب ہے
ہائے
یہ شہر کبھی شہرِ بتاں ہوتا تھا
جس جگہ تیری حویلی ہے کھڑی، شہزادی
میرے پرکھوں کا یہاں ایک مکاں ہوتا تھا
آج دیکھا سرِ بازار پھٹے حالوں اسے تیرا
شاعر
جو
کبھی شوخ بیاں ہوتا تھا
خاک اڑتی ہے خموشی سے جہاں اب میری
ایک شعلہ سا یہاں رقص کناں ہوتا تھا
لوگ
لیتے تھے مرے ہاتھ کا بوسہ
اشعر
میرا کردار کہانی میں بیاں ہوتا تھا
No comments:
Post a Comment