َدائیں
حشر جگائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
خیال حرف نہ پائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
چمن کو جائے تو دَس لاکھ نرگسی غنچے،
زَمیں پہ پلکیں بچھائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
غزال قسمیں ستاروں کی دے کے عرض کریں،
حُضور! چل کے دِکھائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
اُداس غنچوں نے جاں کی اَمان پا کے کہا،
لبوں سے تتلی اُڑائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
وُہ پنکھڑی پہ اَگر چلتے چلتے تھک جائے،
تو پریاں پیر دَبائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
یہ شوخ تتلیاں ، بارِش میں اُس کو دیکھیں تو،
اُکھاڑ پھینکیں قبائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
حلال ہوتی ہے پہلی نظر تو حشر تلک،
حرام ہو جو ہٹائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
جو کام سوچ رہے ہیں جناب دِل میں اَبھی،
وُہ کام بھول ہی جائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
سرہانے میر کے ٹُک فاتحہ کو گر وُہ جھکے،
تو میر شعر سنائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
غزال نقشِ قدم چوم چوم کر پوچھیں،
کہاں سے سیکھی اَدائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
اَگر لفافے پہ لکھ دیں، ملے یہ ملکہ کو،
تو خط اُسی کو تھمائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
ستارے توڑ کے لانے کی کیا ضرورت ہے،
ستارے دوڑ کے آئیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
جفا پہ اُس کی فدا کر دُوں سوچے سمجھے بغیر،
ہزاروں ، لاکھوں وَفائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
ہم اُس کے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں سکتے،
گلے سے کیسے لگائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
نجومی دیر تلک بے بسی سے دیکھیں ہاتھ،
پھر اُس کو ہاتھ دِکھائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
تمام آئینے حیرت میں غرق سوچتے ہیں،
اُسے یہ کیسے بتائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
صنم کی تجھ کو قسم قیس روک دے یہ غزل،
رفیق مر ہی نہ جائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
خیال حرف نہ پائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
چمن کو جائے تو دَس لاکھ نرگسی غنچے،
زَمیں پہ پلکیں بچھائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
غزال قسمیں ستاروں کی دے کے عرض کریں،
حُضور! چل کے دِکھائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
اُداس غنچوں نے جاں کی اَمان پا کے کہا،
لبوں سے تتلی اُڑائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
وُہ پنکھڑی پہ اَگر چلتے چلتے تھک جائے،
تو پریاں پیر دَبائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
یہ شوخ تتلیاں ، بارِش میں اُس کو دیکھیں تو،
اُکھاڑ پھینکیں قبائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
حلال ہوتی ہے پہلی نظر تو حشر تلک،
حرام ہو جو ہٹائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
جو کام سوچ رہے ہیں جناب دِل میں اَبھی،
وُہ کام بھول ہی جائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
سرہانے میر کے ٹُک فاتحہ کو گر وُہ جھکے،
تو میر شعر سنائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
غزال نقشِ قدم چوم چوم کر پوچھیں،
کہاں سے سیکھی اَدائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
اَگر لفافے پہ لکھ دیں، ملے یہ ملکہ کو،
تو خط اُسی کو تھمائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
ستارے توڑ کے لانے کی کیا ضرورت ہے،
ستارے دوڑ کے آئیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
جفا پہ اُس کی فدا کر دُوں سوچے سمجھے بغیر،
ہزاروں ، لاکھوں وَفائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
ہم اُس کے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں سکتے،
گلے سے کیسے لگائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
نجومی دیر تلک بے بسی سے دیکھیں ہاتھ،
پھر اُس کو ہاتھ دِکھائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
تمام آئینے حیرت میں غرق سوچتے ہیں،
اُسے یہ کیسے بتائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
صنم کی تجھ کو قسم قیس روک دے یہ غزل،
رفیق مر ہی نہ جائیں، وُہ اِتنا دِلکش ہے،
No comments:
Post a Comment