مرا سکوت ۔۔۔۔مری گفتگو سمجھتی ہے
مرے
مزاج کو تُو۔۔۔صرف تُو سمجھتی ہے ۔
کبھی تو بھیج محبت کی بے بہا بارش
مری
زمین کو کیوں بے نمو سمجھتی ہے ۔
میں کھینچتا ہوں ورق پر لکیر اداسی کی
وہ سادہ دل اسے میرا لہو سمجھتی ہے ۔
کچھ اس لیے بھی خموشی اٹھائے پھرتا ہوں
کہ
سچ کہوں تو یہ دنیا عدو سمجھتی ہے ۔
یہ صرف تم ہو جسے مجھ سے بدگمانی ہے
وگرنہ خلق تو مجھ کو گرُو سمجھتی ہے ۔
میں
اپنے دل میں ہوں ناکامیوں پہ شرمندہ
اور
ایک وہ کہ مجھے سرخرو سمجھتی ہے ۔
اسے مرید کروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آستانے کا
جو کار۔ عشق کو طوق۔گلُو سمجھتی ہے ۔ ۔ ۔
ع ر واصفؔ
No comments:
Post a Comment