خودی پہ غم کی بارش کر رہا ہوں
خوشی کو نذر آتش کر رہا ہوں
بڑی مشکل سے جو حاصل ہوا تھا
اسے کھونے کی کوشش کر رہا ہوں
ستائے گا مجھے کیا خوفِ دشمن
تری یادوں کی بندش کر رہا ہوں
مخالف خود کا میں ایسا ہوا ہوں
انا سے اپنی رنجش کر رہا ہوں
حقیقت بول کر خود ہی پھنسوں گا
مگر پھر بھی یہ لغزش کر رہا
ہوں
ردیف و قافیہ تجھ کو بنا کر
غزل کی میں بھی کاوش کر رہا
ہوں
میسر ہے مجھے اب غم کا مشعل
اسی سے گھر کو تابش کر رہا ہوں
گلوں کا شوق اب مجھ کو نہیں ہے
فقط خاروں کی خواہش کر رہا ہوں
No comments:
Post a Comment