کٹتے ہوئے سروں کو بھی دستار چاہیے
اک صبح بے کفن کو ضرورت ہے نوحہ گر
اک شام بے ردا کو عزدار چاہیے
سورج نے سر پہ تان لیا شب کا سا ئباں
اب دھوپ کو بھی سائیہ دیوار چاہیے
ہیرے نہ ہوں تو اشک سجا لو دکان میں
سودا گروں کو گرمی بازار چاہیے!
ایسا نہ ہو کہ برف ضمیروں کو چاٹ لے
یخ بستگی کو شعلہ پندار چاہیے
اذن سفر ملا ہے تو حد نظر غلط!
پرواز آسماں کے بھی اس پار چاہیے
خوشبو کی جھا نجھر یں ہیں ہواؤں کے پاؤں میں
شاید سکوت دشت کو جھنکار چاہیے
ہے مدعی کی فکر نہ مجرم سے واسطہ
منصب کو صرف اپناطرفدار چاہیے
شورش لہو کی ہو محسن اذان شوق
غوغا کوئی تو آج سرِدار چاہیے
Buhat khoob, lajawab
ReplyDelete