ساغر صدیقی کا نام محمد اختر اور تخلص ساغر تھا۔1928 میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔گھر میں بہت تنگ دستی تھی اسس لیے ان کی تعلیم واجبی سی ہوئی۔
15؍بر س کی عمر میں شعر کہنے لگے تھے۔ شروع میں قلمی نام ناصر حجازی تھا لیکن جلد ہی بدل کر ساغر صدیقی ہوگئے۔ترنم بہت اچھا تھا۔لطیف گورداس پوری سے اصلاح لینے لگے۔1947 میں وہ لاہور آگئے۔
ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ انھوں نے متعدد فلموں کے گانے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔۱۸؍جولائی 1974 کو لاہور میں انتقال کرگئے۔
ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’زہر آرزو‘، ’غم بہار‘، شب آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوح جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘۔ ’’کلیات ساغر ‘‘ بھی چھپ گئی ہے۔
مرے سوزِ دل
کے جلوے یہ مکاں مکاں اجالے
مری آہِ پر
اثر نے کئی آفتاب ڈھالے
مجھے گردشِ
فلک سے نہیں احتجاج کوئی
کہ متاعِ
جان و دل ہے تری زلف کے حوالے
یہ سماں بھی
ہم نے دیکھا سرِ خاک رُل رہے ہیں
گل و انگبیں
کے مالک مہ و کہکشاں کے پالے
ابھی رنگ
آنسوؤں میں ہے تری عقیدتوں کا
ابھی دل میں
بس رہے ہیں تری یاد کے شوالے
مری آنکھ نے
سنی ہے کئی زمزموں کی آہٹ
نہیںبربطوں
سے کمتر مئے ناب کے پیالے
یہ تجلیوں کی
محفل ہے اسی کے زیرِ سایہ
یہ جہانِ کیف
اس کا جسےوہ نظر سنبھالے
یہ حیات کی
کہانی ہے فنا کا ایک ساغر
تو لبوں سے
مسکرا کر اسی جام کو لگا لے
(ساغر صدیقی)
No comments:
Post a Comment