سکھ
کا موسم خیال و خواب ہوا۔
سانس لینا بھی اب عذاب ہوا ۔
آنکھوں
آنکھوں پڑھا کرو جز بے ۔
چہرے چہرے کھلی کتاب ہوا ۔
روشنی
اس کے عکس کی دیکھو۔
آئینہ شب کو آفتاب ہوا
اِک فلک ناز کی محبت
میں
میں ہوا ؤں کا ہمر کا ب ہوا ۔
عدل پرور کھبی حساب تو کر ۔
ظلم کس
کس پہ بے حساب ہوا۔
کون مو جوں میں گھو لتا ہے
لہو۔
سر خرو کس لیے چناب ہوا ۔
کس کے
سر پر سناں کو رشک آیا ۔
کون مقتل میں کامیاب ہوا ۔
اب کے ہجراں کی دھوپ میں محسن
No comments:
Post a Comment