بارش کی ایک بُوند بھی اب کے گری نہیں
پھر بھی یہ گھاس پچھلی رُتوں کی جلی نہیں
پھر بھی یہ گھاس پچھلی رُتوں کی جلی نہیں
شاید
کسی کے حسنِ فسردہ میں کھو گئی
اب کے ہوائے کوئے بتاں منچلی نہیں
اب کے ہوائے کوئے بتاں منچلی نہیں
لو
دے رہا ہے زخمِ شناسائی آج بھی
زندہ ہُوں, زندگی میں کسی کی کمی نہیں
زندہ ہُوں, زندگی میں کسی کی کمی نہیں
اپنی
انا کے شہر میں آنے نہیں دیا
پیارے یہ دوستی ہے تری نوکری نہیں
پیارے یہ دوستی ہے تری نوکری نہیں
تازہ
ہوائیِں سر کو پٹکتی ہیں بار بار
واعظ ترےشعور کی کھڑکی کُھلی نہیں
واعظ ترےشعور کی کھڑکی کُھلی نہیں
صحرا
کو چل پڑا ہے سفینہ بہار کا
اہلِ چمن کو اس کی ضرورت رہی نہیں
اہلِ چمن کو اس کی ضرورت رہی نہیں
جگنو
کوئی چمکتا ہےدل میں کبھی کبھی
تاریکیوں میں زندگی تاباں بجھی نہیں
تاریکیوں میں زندگی تاباں بجھی نہیں
عبدالقادر
تاباں
No comments:
Post a Comment