صیّاد تو امکان سفر کاٹ رہا ہے
اندر سے بھی کوئی میرے
پَر کاٹ رہا ہے
اے چادر منصب، ترے
شوقِ گُلِ تازہ
شاعر کاترے دست ہنر کاٹ رہا ہے
جس دن سے شمار اپنا
پنہ گیروں میں ٹھہرا
اس دن سے تو لگتا ہے
کہ گھر کاٹ رہا ہے
کس شخص دل میں نے
دکھایا تھا کہ اب تک
وہ میری دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے
قاتل کو کوئی قتل کے
آداب سکھائے
دستار کے ہوتے ہوئے سر
کات رہا ہے
No comments:
Post a Comment