غزل
ہر روز کسی کی رونے کی آواز سنائی دیتی ہے
بے موت مریں گے لوگ یہاں ، اب موت دوہائی دیتی
ہے
کچھ لوگ ہوا میں اُڑتے ہیں کچھ لوگ ننگے پھرتے
ہیں
یہ نا انصافی دنیا کو ایک روز تباہی دیتی ہے
انصاف کرو ، انصاف کرو ، کچھ انکا بھی احساس کرو
کچھ بھی نہ بچے گا آخر میں ، میری ہوش گواہی
دیتی ہے
ملنے سے کیا ملنا ہے تجھے ،ملنے سے بہتر دوری ہے
ملنے کا مزا تو کچھ بی نہیں ، جو مزا جدائی دیتی
ہے
یہ دنیا ہے زر داروں کی ہے قید غریب بیچاروں کی
طور: بے درد زمانے کو اب تو ہر بات دیکھائی دیتی
ہے ۔
منظور حسین طور
No comments:
Post a Comment