
حضرت ابو بکرؓ چو طرف نظر رکھے ہوئے تھے ، گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سن کر گھبراگئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! کو ئی ہمارے تعاقب میں آرہا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا: گھبرانے کی ضرورت نہیں ، اللہ ہمارے ساتھ ہے ،سُراقہ کے گھوڑے نے دوبارہ ٹھوکر کھائی تو اس نے پھر فال دیکھی جو اس کی مرضی کے خلاف نکلی، سو اونٹ کا لالچ کچھ کم نہ تھا، حضور ﷺنے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی کے اس کے شر سے بچائے ، پھر جب وہ گھوڑے پر سوار ہوکر بڑھا تو ٹھوکر کھا کر گرا اور اب کی مرتبہ گھوڑے کے پاوں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے، اب ہمت ٹوٹ گئی اور سمجھ گیا کہ غیبی طاقت محمدﷺ کی محافظ ہے، قریب آکر امان طلب کی اور اپنی گستاخی کی معافی چاہی(سیرت طیبہ - قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی) آپ ﷺ نے دعا فرمائی، زمین نے گھوڑے کے پاؤں چھوڑ دئیے، عرض کیا : مجھے امان نامہ عطا ہو، حضور ﷺ کے حکم پرعامر ؓ بن فہیر ہ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر امان کافرمان لکھ کر دیئے جسے سُراقہ نے محفوظ رکھا اور آٹھ سال بعد فتح مکہ ، حنین ا ور طائف کے غزوات کے بعد واپس ہو ئے اور جعرانہ میں مال ِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے تو اُس وقت سُراقہ نے حاضر ہو کر امان نامہ پیش کیا، حضور ﷺ نے مالِ غنیمت میں سے بہت کچھ عطا فرمایا سُراقہ نے حضور ﷺ کے حسن ِسلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا جب جانے لگا تو حضورﷺ نے فرمایا: و ہ بھی کیا وقت ہوگا جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے، حیران ہو کر پوچھا ، کسریٰ شہنشاہ ایران کے کنگن ؟ فرمایا: ہاں : بعد کے واقعات نے بتلایا کہ خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ کے دورِ خلافت میں حضرت سعدؓبن ابی وقاص نے ایران فتح کر کے وہاں کی ساری دولت مدینہ روانہ کی، اس وقت حضرت عمرؓ نے سُراقہ کو طلب فرمایا اور حکم دیا کہ کسریٰ کے کنگن اسے پہنائے جائیں، پھر زرِ بفت کا کمر پٹہ ، ہیروں اور جواہرات سے مرصّع تاج پہنا یا گیا، اور فرمایا کہ ہاتھ اٹھاؤ اور کہو تعریف ہے اس اللہ کی جس نے یہ چیزیں کسریٰ بن ہرمزسے چھین لیں جو کہتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں اور انھیں بنی مد لج کے ایک بدو سُراقہ بن مالک بن جعشم کو پہنا دیں، حضرت عمر ؓ ساتھ ساتھ اللہ اکبر کی تکبیر کہتے رہے۔ ) ابن ہشام بحوالہ سیرت احمد مجتبیٰ (
No comments:
Post a Comment