پيار اسکی
کوئی حقيقت نہيں اگر ہے تو کوئی بتا دے ميرے علم ميں اضافہ ہوجاے گا ۔ جب سے انڈيا
اور انڈيا کے بعد پاکستانی فلميں اور ڈرامے بننا شروع ہوے تب سے پيار کا وجود
سامنے آيا۔ آپ کسی 120 سالہ آدمی سے پيار کی تعريف پوچهيں اور پهر 20 سالہ نوجوان
سے بهی پوچهيں آپکو پتہ چل جاے گا۔ پيار آپکو صرف بنگلہ ديش ،انڈيا ،پاکستان اور افغانستان
کے لوگوں ميں ملے گا آور کہيں بهی نہيں۔ ايک مثال کے ذريعے سمجهاتا ہوں ۔ ايک بندے
کو کہا اپنی بهينس مجهے بيچ دو وه بولا نہيں صاحب ميں اس بهينس سے سب سے زياده
پيار کرتا ہوں۔اسی طرح شکاري سے پوچهيں تو وه کہے گا کہ ميں اپنے کتے سے سب سے
زياده پيار کرتا ہوں۔ ايک صاحب سے کہا کہ اپنے دادا پردادا کے زمانے کی مرسڈيز بنز
کار رکهی ہے ہميں بيچ دو تو بولے کہ ارے جاؤ خان صاحب اس کار سے ہمارے سارے فيملی
والے پيار کرتے ہيں،۔،۔،۔آپکو اکثر ايسی ہی چيزوں سے پيار کرنيوالے مليں گے،۔اگر
کوئی کہے بهی کہ مجهے فلاں بندے سے پيار ہے تو اپ ذرا زرو دے کر پوچهيں تو وه کہے
گا کہ پيار نہيں محبت مجهے فلاں بندے سے محبت هے۔ المختصر پيار کا کوئي وجود نہيں
اور اسکا دوسرا نام ٹهرک پن هے جو کہ زياده تر face
book پر پايا جاتا هے عشق اور محبت ميں فرق کی بات کريں تو
آپکو بتاتا چلوں کہ ايک عشق ہے اور ايک محبت ہے ، محبت ميں وصال کے تقاضے ہوتے ہيں
،اور اگر مُحِب کو پتہ لگ جاے کہ ميرا محبوب فلاں شخص سے بهی محبت کرتا ہے تو اِس
ميں مُحِب کی موت ہوتی ہے، رقيب کی بهی موت ہوتی ہے ، دوسری طرف عشق ہے تو عشق ميں
نہ تو جدائی ہے اور نہ ہی عشق ميں وِصال کے تقاضے ہيں "العشق نار يحرقها ما
سِوالله" جدائی بهی نہيں
ہوتی عشق اعلٰی درجہ پر ہوتا ہے کوئی تقاضہ نہيں ہوتا اور اگر عاشق کو پتہ چلا جاے
ميرا معشوق فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تو پهر يہ مياں عاشق اپنے معشوق کے محبوب کا
بهی غلام بنا رہتا هے، کہ ميرے معشوق کی تجھ سے محبت هے، محبت ميں رقابت کی بات
ہوتی ہے پهر رقيب کا خون پينے سے بهی سکون نہيں آتا تو پهر مُحِب بنده عشق مانگتا
ہے اور اگلے مقام ميں يہی کہتا هے " ده
خيام کوسے لہ زمہ چی دوزخ پہ اشارو شی"(پشتو شعر) کہ اسکے کوچے کی راہيں يہی
محشر سے گزرنا اور يہی پُلِ صراط سے گزر کر يہ يار کے کوچے کی راہيں ہيں تو وه
کہتا ہيکہ ايسا حال بنا ديدے اپنے عشق سے کہ ميرے سارے ارادے جل جائيں اور وه حال
نصيب ہو مؤمن پُلِ صراط پر جب گزرتا ہے تو تو جہنم کہتا ہيکہ جلدی جلدی گزر جا کہ
تيرے ايمانی شعلوں سے ميرے شعلے ماند پڑ رہے ہيں اور جہنم کو اپنے تيز ترين شعلوں
پر فخر ہے اور جنت کو اپنے ذيب و زينت پر فخر هے جب کوئی بنده الله کا نفس کابنده
نہ ہو جو الله سے اپنے اغراض و مقاصد کے ليے محبت کرے وه نفس کا بنده ہے نفس کا
بنده جب عمل کرتا ہے تو عِوض اور غرض کےليۓ کسی نے کيا خوب کہا ہے عاشق کے بارے ميں
کہ سمجهو تو بہت فرق ہے مجھ ميں اور اغيار ميں ميں تجھ پے ہوں قربان وه قربانِ
تمنا ۔
قُل اِن کُنتُم تُحِبون الله فاتَّبِعُونِی
يُحبِبکُم الله تو کہہ اگر تم محبت رکهنا چاہتے ہو الله کی تو ميری راه چلی تاکہ
تم محبت کرے تم سے الله۔ جو شخص الله سے محبت رکهنا چاہتا ہو اور يہ چاہتا ہوکہ
الله اسکو محبوب رکهے تو يہ اسوقت تک نہيں ہوسکتا جب تک الله کے محبوب حضرت محمد
صلی الله عليه وسلم کی اتباع نہ کرے۔ محبت کی تعريف : : محبت عبارت ہے کسی چيز کی طرف طبيعت کے ميلان سے اگر يہ ميلان قوی اور
مؤکد ہوجاے تو اسکو عشق کہتے ہيں اور بغض عبارت ہے طبيعت کے متنفر ہونے سے کسی درد
لدينے والی اور تهکا دينی والی چيز سے جب ، اور جب يہ نفرت قوی ہوجاے تو اسکو
ہلاکت کہتے ہيں مفسرين کرام نے اس آيت کی تشريح ميں ايک سوال اٹهايا ہيکہ محبوبِ
حقيقی تک پہنچنے کا راستہ کيا ہے اور وه کيا اسباب ہيں کہ جن سے محبوبِ حقيقی(الله
تعالٰی) کی کامل محبت حاصل ہوتی ہے ۔ پس آيتِ کريمہ سے جواب يه ديا گيا کہ محبوب
کی اداؤں سے اپنے آپکو جوڑا جاے اور اسکے مخالفين سے اپنے آپکو موڑا جاے ۔ شانِ
نزول : :مفسرين نے اس آيت کے دو شانِ نزول بيان فرمائيں ہيں نمبر 1 : : حضرت حسن اور ابنِ جريج فرماتے ہيں بعض قوموں
نے آپ صلی الله عليه وسلم کے زمانہ مبارک ميں يہ گمان کيا کہ وه الله تعالٰی سے
محبت کرتے ہيں تو الله تعالٰی نے انکے جواب ميں يہ آيت نازل فرمائی۔ نمبر 2 : :
امام ضحاک حضرت ابنِ عباس رضی الله عنه سے روايت کرتے ہيں کہ انہوں نے فرمايا نبی
عليه السلام مسجد حرام ميں قريش کی ايک جماعت کے پاس رکے جنہوں نے وہاں اپنے بتوں
کو نصب کيا ہوا تها اور ان پر شطر مرغ کے انڈے لٹکاے ہوے تهے اور ان بتوں کے کانوں
ميں بالياں ڈالی ہوئی تهيں اسے سجده کر رہے تهے حضور صلی الله عليه وسلم نے يہ
منظر ديکها تو انہيں مخاطب کر کے فرمايا اے جماعتِ قريش تم نے اپنے بڑے ابراهيم و
اسماعيل عليهما السلام کی ملت کی مخالفت کی ہے تحقيق وه دونوں دينِ اسلام پر تهے ،
قريش نے کہا اے محمدصلی الله عليه وسلم ہم ان بتوں کی پوجا الله کی محبت حاصل کرنے
کے ليۓ کرتے ہيں تاکہ ہم ان بتوں کے ذريعے الله کے نزديک اونچا مقام و مرتبہ پا
سکيں ! تو الله پاک نے يہ
آيت نازل فرمائی عارفين کے نزديک محبت کی حقيقت کيا ہے ??? وه محبوب کی ملاقات کے ليۓ دل کا تڑپنا ، لذتِ عشق سے روح کا لطف اندوز ہونا،حواس کا اپنائيت کے سمندر
ميں مستغرق رہنا ،نفس کا پاکيزه پانی کے ذريعے پاک ہونا ،زنده آنکهوں سے محبوب کو
ديکهنا ، جہاں بهر سے آنکهوں کا پهير لينا ، اسرار کو پردهِ غيب ميں رکهنا اور محب
کا اخلاقِ محبوب سے مزين ہونا يہی حقيقی محبت ہے ۔ اس محبت کی فرع محبوب کے تمام
پسنديده اقوال کی پيروی کرنا اسکے غير موافق مزاج کو خوش دلی سے قبول کرنا اور
اسکے فيصلوں کو سرِ تسليم خم کرنا ، وفاداری کی پاسداری کرنا اور آپ صلی الله عليه
وسلم کی سنت کی پيروی کرنا۔
آدابِ محبت : : يہ ہيں کہ نفسانی اور من چاہی خواہشات سے احتراز کرنا ، تنہائی اور خلوت
کو لازم پکڑنا ،اپنا محاسبہ کرنا ، عمده خصلتوں کو تهامے رکهنا اور عاجزی و
انکساری کو لازم ملزوم رکهنا۔ مساکين اهل العشق حتٰی قبورهم عليها تراب الذل بين
المقابر اہلِ عشق کے ٹهکانوں سے ليکر قبروں تک عاجزی اور مسکنت چهائی رہتی ہے يہ
اسی وقت ممکن ہيکہ روحِ انسانی مشاهداتِ الٰہی کو اسکی خوبيوں کيوجہ سے پيشِ نظر
رکهے نہ کہ اسکے مال اور سروت سے سر پے نظر کرلے کہ مال اور سروےلت کی بنا پر محبت
ہونے ميں علت کی تلاش رہتی ہے سروت ہوگی تو محبت ہوگی در حقيقت محبت وہی ہے جو
بلاسبب ہو ،مُحب کے اور محبوب کے درميان بلا امتياز قائم رہے اسليۓ کہتے ہيں کہ
محبت اس سے قائم ره ہی نہيں سکتی جو آگ اور جنت کی خوشی اور پريشانی ،فرض و سنت
،مطلب براری اور نقطہ چينی کے درميان فرق رکهتا هو اور محبت صحيح نہيں ہوسکتی مگر
اس شخص سے جو سب کو بهلا کر محبوب کے مشاہدے ميں مستغرق ہوجاے اور اس ميں فنا
هوجاے۔
محبت کی تين قسميں ہيں عوام کی محبت خواص کی محبت
اخص الخواص کی محبت عوام کی محبت يہ احسانات کے ظہور سے پيدا ہوتی ہے ،محسن کے
احسان ديکهنے کيوجہ سے محسن سے محبت پيدا ہوتی ، قلوب کی تخليق اس طرح ہوئی ہيکہ يہ
اپنے احسان کرنے والے کيساتھ محبت کرتے ہيں ، يہ محبتب بدلتی رہتی ہے ،يہ اعمال کے
تابع ہوتی ہے ۔وه لوگ جو اپنے اعمال پر اجر کے طالب ہوتے ہيں انکے بارے ميں ابو
طيب نے کيا خوب کہاہے وَمَا اَنا بِالبَاغِی عَلَی الحبِ رشوه ضعيف هوی يرجی عليه
ثواب ميں محبت پر رشوت ليکر بغاوت کرنيوالا نہيں ہوں ،کمزور بندہ ہوں جو تمناؤوں
پر ثواب کی اميد رکهتا ہوں خواص کی محبت يہ اپنے پيروکاروں سے انکے اخلاص کيوجہ سے
ہے جو ان سے اُن کی عظمت اور جلال کيوجہ سے محبت کرتے ہيں جس کے وه حقدار ہيں ، اس
بارے ميں آپ صلی الله عليه وسلم کا فرمان مبارک ہيکہ (نعم العبد صهيب لو لم يخف
الله لم يعصيه)کہ صهيب کيا ہی خوب بنده ہے اگر الله کا لحاظ نہ ہوتا تب بهی وه
نافرمانی نہ کرتا ، مطلب يہ ہيکہ نافرمانی جو نہيں کرتا يہ الله کے لحاظ کیوجہ سے
نہيں کرتا۔ حضرت رابعہ بصری فرماتی ہيں کہ ميں تم سے دو محبتيں کرتی ہوں ايک
تمناؤوں کی اور دوسری اس ليۓ کہ تم اسکے مستحق ہو اور يہ دوسری محبت کبهی نہيں بدلتی اسکا جلال اور
جمال دائمی ہے ۔ (الله ہم سبکو دائمی محبت نصيب کرے) اخص الخواص کی محبت يہ محبت
اپنے پيروکاروں کے احوال کے تابع ہے اور يہ پيدا ہوتی هے جاذبيتِ الٰہی کيوجہ سے
يہ ہمہ وقت ان پر حاوی رہتی ہے( ميں چهپا ہوا خزانہ تها ) اور اس محبت کے اہل کامل
معرفت کی استعداد والے هوتے ہيں اور اسکی حقيقت يہ ہيکہ جب اسکے جلال ميں فنا
ہوجاے تو اپنے آپکو گم کردے اور کبهی کبهار وه حيران اور پريشان ره جاتا ہے ،نہ
زندوں کی مانند ہيں کہ اسکی اميد کيجاے نہ مردوں کی مانند ہيں کہ اس پر رويا جاے ۔
No comments:
Post a Comment