زخم ہستی کی کسک سے ہے
نشانہ بےخبر
نگہتوں کے سائے میں ٹوٹے
پڑے ہیں چند پھول
بجلیوں کی یورشوں سے آشیانہ
بے خبر
حسن برہم کو نہیں حال پریشاں
سے غرض
ساز دل کی دھڑکنوں سے ہے
زمانہ بے خبر
دونوں عالم وسعت آغوش کی
تفسیر ہیں
دیکھنے میں ہے نگاہ
مجرمانہ بے خبر
آپ اپنے فن سے ناواقف ہے
ساغر کی نظر
لعل و گوہر کی ضیاؤں سے
خزانہ بے خبر
No comments:
Post a Comment