الف ۔ کی کہاوتیں
(۱۵۱) ایک آوے کے برتن ہیں :
آوا یعنی گھان، ایک مرتبہ کی تیار کی ہوئی چیز۔ مطلب یہ ہے کہ سب کے سب ایک ہی خصلت کے ہیں جیسے ان کی ساخت و پرداخت ایک ہی وقت میں ہوئی ہو۔ اس کو’’ ایک ہی تھالی کے چٹّے، بٹّے ہونا‘‘ بھی کہتے ہیں۔
(۱۵۲) ایک آنچ کی کسر ہے :
کام پورا ہونے تھوڑی سی کسر رہ گئی ہے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۱۵۳) ایک پاؤں اندر، ایک پاؤں باہر :
یعنی اتنا مصروف کہ ایک پاؤں گھر کے اندر ہے اور ایک باہر۔مستقل سفر میں ہے۔
(۱۵۴) ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی ہیں :
یعنی ایک جگہ برابر کے دو بہادر نہیں رہ سکتے۔ جلد یا بدیر ایک کو پیچھے ہٹنا ہی ہو گا۔
(۱۵۵) ایک نہیں ستّر بلائیں ٹالتی ہے :
ہر بات پر بلا سمجھے بوجھے ہاں کہہ دینا اپنے اوپرم شکلات کو بلانے کے برابر ہے۔ بہتر یہ ہے کہ موقع کی مناسبت دیکھ کر کام سے انکار کر دیا جائے کیونکہ ایک نہیں سے بے شمار آنے والی بلائیں ٹل سکتی ہیں۔
(۱۵۶) ایک چُپ سو کو ہراتی ہے :
اگر مستقل باز پرس کے جواب میں خاموشی اختیار کر لی جائے تو بہت سے مشکلوں سے بچا جا سکتا ہے۔
(۱۵۷) ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے :
جس طرح ایک سڑی مچھلی سے سارا تالاب گندا ہو جاتا ہے اسی طرح ایک خراب آدمی سارے معاشرہ کی خرابی اور بدنامی کا باعث ہو سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment