الف ۔ کی کہاوتیں
(۱۰۹) اوچھے کے گھر کھانا، جنم جنم کا طعنہ :
کم ظرف میزبان کے گھر دعوت کھانا خطرہ سے خالی نہیں کیونکہ وہ ہر موقع پر اپنا احسان جتانے سے نہیں چوکے گا اور طعنے الگ دے گا۔
(۱۱۰) اونٹ سستا ہے، پٹا مہنگا ہے :
اگر کوئی چیزخودتوسستی ہو لیکن اس کے لوازمات مہنگے ہوں تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ اگر کسی اچھی چیز کے ساتھ کوئی کم درجہ چیز بھی لینی پڑ جائے تب بھی کہاوت استعمال ہوتی ہے۔ کہاوت کا پس منظر ایک کہانی ہے۔ایک شخص کا اونٹ بھاگ گیا۔ جب وہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے پریشان ہو گیا تو اس نے غصہ میں قسم کھا لی کہ’’ اگر اونٹ مل گیا تو کم بخت کو اپنے پاس نہیں رکھوں گا اور اسے پانچ روپے میں فروخت کر دوں گا۔‘‘ اتفاق سے دوسرے ہی دن اونٹ مل گیا۔اس کے دل میں لالچ آئی کہ کسی طرح قسم بھی پوری ہو جائے اور اونٹ بھی بچ جائے۔ اس نے اونٹ کے گلے میں ایک خوبصورت پٹّا ڈال دیا اور بازار میں لوگوں کو بتایا کہ’’ اونٹ کی قیمت پانچ روپے ہی ہے لیکن پٹّا پانچ سو روپے کا ہے۔‘‘ کوئی شخص اس قیمت پر یہ سوداکر نے کو تیار نہیں ہوا اور اس طرح اس کا اونٹ بچ گیا۔
(۱۱۱) اونٹ چڑھے پر کتا کاٹے :
یعنی مصیبت آنے والی ہوتی ہے توکسی نہ کسی صورت آ ہی جاتی ہے۔اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے اونٹ پر بیٹھنے کے بعد بھی کتا کاٹ کھائے۔
(۱۱۲) اوس سے پیاس نہیں بجھتی :
یعنی چیز بہت کم ہو تو کام نہیں چلتا ہے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
(۱۱۳) اَوّل خویش، بعدہٗ دَرویش :
سب سے پہلے خود،پھر اس کے بعد فقیر یعنی سب سے اہم خود اپنی ذات ہے، دوسرے اس کے بعد آتے ہیں۔اسی معنی میں ’’خیرات اپنے گھرسے شروع ہوتی ہے‘‘ بھی بولتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment