خیال
ہے کہ بجھا دو یہ روشنی کے چراغ
کہ
مستیوں نے جلاۓ ہیں بیخودی کے چراغ
چلو
نگاہ کی مشعل کو ساتھ لے کر چلیں
فرازشوق
پہ روشن ہیں آگہی کے چراغ
روش
روش پہ ہراساں ہیں چاند کی کرنیں
قدم
قدم پر سلگتے ہیں بیکسی کے چراغ
مچل
رہے ہیں بہت سانپ آستینوں میں
بھڑک
رہے ہیں ابھی شام راستی کے چراغ
چمک
رہی ہے لڑی موتیوں کے سینے پر
جلاۓ کس نے یہ گلہاۓ شبنمی کے چراغ
اچھال
ساغر مےدل بحال ہوں ساقی
کہ
روشنی کو ترستے ہیں زندگی کے چراغ
No comments:
Post a Comment