آ۔ کی کہاوتیں
( ۵۵) آمدن بہ اِرادت، رفتن بہ اِجازت :
یعنی کسی کا پاس جانا اپنی مرضی اور ارادے سے ہوتا ہے لیکن اس سے رخصت ہونا میزبان کی اجازت پر منحصر ہوتا ہے۔
(۵۶) آم کھانے سے کام ہیں نہ کہ پیڑ گننے سے :
آم کھانے والے کو آموں سے مطلب ہونا چاہئے نہ کہ اس سے کہ آم کے پیڑ باغ میں کتنے ہیں۔ اسی طرح دانش مند آدمی کو فضولیات چھوڑ کر اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔
( ۵۷) آنتیں گلے پڑ گئیں :
یعنی بہت مشکل میں گرفتار ہو گئے۔ بڑی آزمائش دَرپیش ہے۔
( ۵۸ ) آنکھ کے اندھے، نام نین سُکھ :
نین سکھ یعنی جس کو دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک محسوس ہو۔ مطلب یہ ہے کہ دعویٰ تو بہت کچھ ہے لیکن اصلیت کچھ اَور ہی کہتی ہے۔ اسے ’’ڈھول میں پول‘‘ بھی کہتے ہیں۔
(۵۹) آنکھ کا اندھا، گانٹھ کا پورا :
یعنی ایسا آدمی جس کو سامنے کی بات نظر نہ آئے اور وہ جانتے بوجھتے نقصان اٹھانے میں کوئی قباحت محسوس نہ کرے۔ یہاں گانٹھ سے مراد لباس یا چادر کے پلّو میں بندھی وہ پوٹلی نما گرہ ہے جس میں لوگ روپے پیسے باندھ لیتے ہیں۔ گانٹھ کا پورا یعنی اُس کے پاس روپے پیسے کی کمی نہیں ہے اور آنکھ کا اندھا سے مراد ہے کہ عقل کی کمی ضرور ہے۔
( ۶۰ ) آنکھوں کے ناخن لو :
ناخن لینا یعنی ناخن کترنا۔ کہاوت کا مطلب ہے کہ سمجھ داری سے کام لو، دانشمندانہ نظر پیدا کرو۔
( ۶۱ ) آنے پائی سے بیباق کر دیا :
پرانے وقتوں میں ایک روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے اور ایک آنے میں چار پیسے۔ اسی طرح ایک پیسے میں تین پائیاں ہوا کرتی تھیں۔ یہاں آنے پائی سے ایک ایک پیسا مراد ہے گویا سارا پیسہ ادا کر دیا اور قرض چکا دیا۔
( ۶۲ ) آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند :
وہ پیالہ ٹوٹ گیا اور وہ ساقی بھی نہیں رہا۔ یعنی اب وہ پچھلا وقت باقی نہیں رہا اور زمانہ بدل کر کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔
No comments:
Post a Comment