آ۔ کی کہاوتیں
( ۴۷ ) آگ اور پھوس کی کیا دوستی :
آگ اور پھوس ایک دوسرے کی ضد ہیں کیونکہ آگ پھوس کو جلا دیتی ہے سو ان کی دوستی کا کیا سوال۔ اسی طرح دو متضاد مزاج کے آدمی بھی مل جل کر گزر نہیں کر سکتے۔
(۴۸) آگ لگے تو بجھے جل سے، جل میں لگے تو بجھے کیسے :
پانی میں اگر آگ لگ جائے تو اس کو بجھانا کارے دارد۔ یعنی جب مسئلہ کا حل یا بہتری کی صورت ہی ہاتھ سے نکل جائے تو مسئلہ کا علاج کیسے ہو سکتا ہے۔محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۴۹) آگ کے مول :
یعنی نہایت مہنگا۔
( ۵۰) آگے پڑے کو شیر بھی نہیں کھاتا :
شیر گرے پڑے مُردہ جانور کے بجائے خود شکار کرنا پسند کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عاجزی کرنے سے ظالم دشمن بھی درگزر کر دیتا ہے۔
( ۵۱ ) آگ لگے پر کنواں کھود رہے ہیں :
یعنی مصیبت جب سر پر آ کھڑی ہوئی تو نجات کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی آگ لگ جانے کے بعد کنواں کھودنا شروع کرے کہ پانی نکلے گا تو آگ بجھا دی جائے گی۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۵۲ ) آگ کھائے انگارے اُگلے :
جس کی تربیت اور صحبت خراب ہو گی اس کی عادات اور خصلت بھی ویسی ہی ہو جائیں گی۔ اچھی طبیعت اچھی تربیت و صحبت اور بری طبیعت بری تربیت و صحبت کا نتیجہ ہوتی ہے۔
( ۵۳ ) آگے جاتے گھٹنے ٹوٹیں، پیچھے دیکھتے آنکھیں پھوٹیں :
کہاوت کا مطلب ہے کہ ہر طرح نقصان ہی نقصان ہے، نہ آگے کی جانب بڑھ سکتے ہیں اور نہ پیچھے واپس جا سکتے ہیں۔
(۵۴) آم کے آم، گُٹھلیوں کے دام :
کوئی آم کھائے اور پھر گٹھلیاں بھی اچھے داموں بک جائیں تو اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے؟ یہ کہاوت تب استعمال ہوتی ہے جب کوئی شخص کسی چیز سے مستفید ہو لے اور پھر اسی چیز کے کسی کمتر پہلو کے طفیل مزید فائدہ اٹھائے۔
No comments:
Post a Comment