میں نے کانٹے تو نہیں
بوئے کہ انگار ملیں
آنکھ لرزاں ہے سرِ محفلِ
ہستی اے دوست
ان کی چلمن کے قرِیں تشنۂ
دیدار ملیں
اس کو ادراک کی پُرنُور
زباں کہتے ہیں
جس میں انساں کی تعظیم
کے اطوار ملیں
ایسی مجروح تمنا ہی صلیبِ
غم ہے
جس کو غنچے بھی بہاروں میں
گرفتار ملیں
خونِ دل شرط ہے اے یار!
بصیرت کے لئے
یہ بھی ممکن ہے کہ
صحراؤں میں گلزار ملیں
حیف اس چارہ گرِ وقت کی
قسمت ساغرؔ
جس کو ہر گام پہ تقدیر
کے بیمار ملیں
ساغرؔ صدیقی
No comments:
Post a Comment