الف۔ کی کہاوتیں
(۱۱۹) اونچی دوکان، پھیکا پکوان :
کسی کا نام بہت بڑا ہو لیکن کام بہت معمولی تو یہ کہاوت بولتے ہیں یعنی نام تو بہت سن رکھا تھا لیکن اصلیت کچھ بھی نہ نکلی۔ اسی معنی میں یہ شعر بھی مستعمل ہے:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
(۱۲۰) اوچھے کے گھر تیتر، باہر باندھوں کہ بھیتر:
کم ظرف آدمی کو ذرا سی دولت یا نام و نمود مل جائے تو اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کس طرح سے اسے دُنیا پر ظاہر کرے جیسے کسی اوچھے کے ہاتھ ایک تیتر آ جائے اور وہ یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ اس کو گھر کے باہر نمائش کے لئے رکھوں یا گھرکے اندر۔
(۱۲۱) اوروں کی تجھ کو کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو :
نبیڑنا یعنی بھگتنا یا حل نکالنا۔ دوسروں کے مسائل میں خواہ مخواہ الجھنا دانشمندی کی نشانی نہیں ہے۔اس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی پہلے اپنے مسائل حل کر لے۔
(۱۲۲) ایک آم کی دو پھانکیں ہیں :
یعنی بالکل ہم شکل و ہم طبع ہیں جیسے آم کی دو قاشیں ہوتی ہیں۔کوئی فرق نہیں ہے۔
(۱۲۳) ایک سے دو بھلے اور دو سے بہتر چار :
ہر کام میں ایک سے دو رائے بہتر ہوتی ہیں اور اگر مزید مل جائیں تو وہ اور بھی اچھی بات ہے۔
(۱۲۴) ایک حمام میں سب ننگے :
یعنی سبھی ایک سی حالت میں ہیں۔کوئی کسی سے بہتر نہیں ہے۔ جب آدمیوں کا پورا گروہ کسی جرم یا غلط کام میں ملوث ہو اور کسی کا ہاتھ برائی سے صاف نہ ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۱۲۵) ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی ہے :
جس طرح تالی کے لئے دو ہاتھ درکار ہوتے ہیں اسی طرح جھگڑے فساد کے لئے بھی دو فریقوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی شخص سارا الزام دوسرے فریق پر رکھے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۱۲۶) ایک جان دو قالب ہیں :
آپس میں بہت محبت ہے۔ ایسا ساتھ ہے جیسے جسم و جان میں ہوا کرتا ہے۔
No comments:
Post a Comment