نورا
راجندر سنگھ بیدی
ابھی میں نے اپنے کمرے میں قدم
رکھا ہی تھا کہ اوپر تلے تین آوازیں سنائی دیں—
’’آج پھر پلیتھن گیر دیا، اُلّو کہیں کے!… ارے چولھا ہی سلگا لیا
ہوتا… اور نہیں تو بھوسی ہی نکال لی ہوتی!—‘‘ اور تینوں آوازیں ایک ہی آدمی کے
مُنھ سے نکلی ہوئی معلوم دیتی تھیں،جن کا جواب خاموشی کے سوا اور کچھ بھی سنائی نہ
دیا۔ سننے والا یا تو کہنے والے کا دبیل تھا اور نہیں تو وہ کہنے والے کو بالکل
جاہل سمجھتا تھا۔ تیسری وجہ خاموشی کی کوئی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ بہ ہر حال، میں یہ بات محسوس کیے بغیر نہ رہ
سکا کہ سننے والا ایک فاش غلطی کر رہا ہے۔ خاموشی اور شرافت کی فی زمانہ قدر ہی کیا
ہے، سواے اِس کے کہ اُس کا ناجائز فائدہ اُٹھایا جائے۔
یہ آوازیں درمیانی کوٹھری سے آ رہی تھیں۔ زمین اور پہلی چھت کے درمیان ایندھن
اور فروعات رکھنے کی جو جگہ تھی، وہاں میں نے لکڑی کے پشتوں اور چند ٹوٹے ہوئے
کواڑوں کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا تھا۔ واللہ اعلم وہ پتھر اور کواڑ ہی بولنے لگے
تھے۔ اُن دنوں میں کسی خاص مقصد کے پیشِ نظر ، پریوں کی کہانیاں پڑھ رہا تھا۔ اور
پھر آپ جانتے ہیں کہ دیو، پری کے قہقہے [قصّے] پڑھنے کے بعد کیا کیا دنیا ے ممکنات
ہے، جو آپ کے سامنے کھلتی ہی چلی جاتی ہے—
پہلی چھت پر ہم کالج کے چند چھوکرے اکٹھّے رہتے تھے۔ باقی کے کم بخت یا تو
گرینڈ کیبرے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور یا پھر بین الصوبائی میچ دیکھنے گئے ہوں
گے۔ اس وقت اُن میں سے وہاں ایک بھی نہیں تھا۔ میں نے ہمّت جمع کی اور قدم آگے
بڑھایا۔ روشنی واقعی درمیانی کوٹھری سے آ رہی تھی۔ ایک عارضی سا دِیا جرمن سلور کی
ایک کٹوری میں سرسوں کا تیل اور بتّی ڈال اور اُسے اُکڑوں رکھ کر جلا دیا گیا تھا،
جس میں سے ایک کالی لاٹ اُٹھ کر اوپر کی دیو داری تختی کو سیاہ کر رہی تھی۔ کالے
کالے پھول تختی کے ساتھ چمٹ رہے تھے اور کچھ دیر کے بعد کٹوری کے اندر یا بتّی پر
گرتے، بتّی مدھم ہو کر ٹمٹمانے لگتی، لیکن پھول پھر بتّی کا حصّہ ہو کر جلنے
لگتے—قریب ایک شخص چارپائی پر لیٹا ہوا، ایک میلے کچیلے چیتھڑے لپیٹے پیچوان کے کش
پر کش لگا رہا تھا۔ بڑا پسند تھا اُسے اپنا پیچوان— ــ ع
ہم کو اپنی گُڑ گڑی اور پیچواں پر ناز ہے
خدا کی قسم!—یہ تو اپنا نوٗراا ہی ہے۔ میں نے ایک لمبی سی ’’اوہو‘‘ کے بعد
کہا۔ اور اُس کے ساتھ جُمّاں تھا، نورے کا سایہ، اُس کے وجود کا نتیجۂ صریح ، جس کی
مونچھیں متواتر تیل لگانے اور کھینچنے سے اور بڑی ہو گئی تھیں۔ اُس کے غبغب اور
چاہِ زنخداں والے سیاہ چہرے پر ایک عجیب لعنت سی برس رہی تھی جسے خوبانی اور آلو
بخارے کے پیچوان سے نکالے ہوئے سستے بدبو دار اور بے حد چکنے تیل نے اور بھی چمکا
دیا تھا۔ اور اس کے سامنے نورا بیٹھا تھا کھلے کھلے ہاتھوں پانو ، چار چار سیڑھیاں
پھلانگنے والا خوب رو ، اور ڈرپوک جو چند ایک لقمے زہر مار کر رہا تھا۔
جُمّاں ایک پیرِ تسمہ پا تھا جو ہر وقت نورے کی گردن پر سوار رہتا۔ مثلاً
اُٹھاؤ چولھا سُلگائے تو نورا، آٹے میں سے بھوسی نکالے تو نورا، برتن مانجھے تو وہی
اور جَو کھنگالے تو وہی——میاں جمّاں بچھی بچھائی پر آ ٹپکتے اور پکّی پکائی کھاتے
تو وہ بھی گویا نورے پر احسان کرتے۔ میں اور میرا ساتھی اسنین ان کی قبر تک سے
واقف تھے۔ اس سے پہلے یہ برادر تعلیم الفرقان والوں کے پیچھے رہتے تھے، جہاں ایک
سفلہ بنگالن ہمیشہ اوپر سے گوبھی کے ڈنٹر ، پیاز کے چھلکے، پھلیاں یا بچا کھُچا
بھات ان کی منڈیا پر پھینک دیتی تھی اور یہ ہمیشہ موٹی موٹی گالیاں دیا کرتے تھے۔
وہاں بھی نورا ویسے ہی جمّاں کا دبیل تھا۔
آخر ایسا کیوں تھا ! یہ اسنین اور میرے دوسرے ساتھی کئی بار سوچتے۔ لیکن ہمیں
آخر دم تک پتہ نہ چل سکا۔ البتہ نورے کی فطرت کا مطالعہ کرتے وقت ہم اکثر حظ اٹھایا
کرتے۔ نورا سخت جذباتی تھا۔ اس کے جذبات کا خزینہ، کانوں اور آنکھوں کے اس قدر قریب
تھا کہ اِدھر کانوں سے بات سُنی اور اُدھر ساون بھادوں کی جھڑی ہے کہ لگ رہی ہے
چھم چھم چھما چھم اور ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، تا وقتے کہ زمین میں کوڑیاں
نہ دبائی جائیں، یا کوٹھے کی منڈیر پر چیتھڑوں کا بُڈھا نہ کھڑا کیا جائے۔ بس اس
کے جذبات کے خزینے کو ذرا چھیڑنے کی ضرورت تھی۔ یا پھر اس کے ماضی کی راکھ میں چند
اور کوئلے تھے، جنھیں وہ اکثر موقع بے موقع اتھلتا پھتلتا رہتا اور جنھیں سرد کرنے
کے لیے وہ آنسوؤں کا سیلاب بہا دیتا۔ ہمیں اس لم دھڑنگے چھے فٹ لمبے منڈھیا میں ہمیشہ
کمر کمان کر کے چلنے والے انسان کو رُلا کر ہمیں مزا آتا تھا—
میں تین چار سیڑھیاں اُتر کر عین نیم چھتّے کے مقابل کھڑا ہو گیا اور کہا—
’’ابے نورے!‘‘
میاں جمّاں اُٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گیا—تعظیماً !اور اپنے پیچوان کی نَے
کو چارپائی کے نیچے پھنسا دیا۔ نورے نے روٹی کا لقمہ سالن ہی میں رہنے دیا اور
ہاتھ ماتھے پر لے جاتے ہوئے بولا ’’بابو جی ! ساہ سلام!‘‘ (صاحب سلام)
’’سلام‘‘ ! میں نے جواب دیتے ہوئے کہا ’’ارے یار تم لوگ بالکل
چوروں کی طرح یہاں آ ٹپکے۔‘‘
’’اور کیا دف تھوڑے ہی بجاتے!‘‘جمّاں نے خلاف توقع مسکراتے ہوئے
کہا۔ دراصل ہونٹوں، بلکہ مونچھوں کا یہ خوش گوار پھیلاؤ اور ماتھے کی ناگوار شکن
مل جُل کر ظاہر کرتے تھے کہ اس کی مسکراہٹ میں مسکراہٹ کم اور رشوت زیادہ ہے، تاکہ
میں اُس کے اجڈ سے جواب کا بُرا نہ مانوں۔
’’شاید میں تمھاری کچھ مدد کر دیتا‘‘ میں نے کہا اور درمیانی
کوٹھری کے چاروں ابرو سوالیہ نشان بن کر مجھے گھورنے لگے۔ میں نے اُن شرمندۂ نطق
سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’مثلاً میں چودھری کو کہہ کر یہاں سپیدی ہی کروا دیتا
اور نہیں تو کرائے ہی میں کچھ رعایت ہو جاتی۔‘‘
اب یہ بات واقعی قابلِ غور تھی۔ جمّاں اور نورا سوچنے لگے۔ سادہ لوح نورا
اپنے چہرے سے واقعی ممنون نظر آ رہا تھا ،لیکن جمّاں ابھی تک دل میں کہہ رہا تھا—
’’یہ امیر لوگ ،کتنے چالاک ہوتے ہیں یہ ’’مجھے بھی بتا دیا ہوتا‘‘ کا انداز اُسی
وقت اختیار کرتے ہیں، جب کسی کی بیل اپنے آپ منڈھے چڑھ جاتی ہے—
حقیقت یہ ہے کہ اسنین تو اِن لوگوں کا یہاں آنا کبھی بھی برداشت نہ کرتا۔
وہ فلسفے کا طالب علم تھا۔ دماغ کا خبطی تھا۔ بالوں میں تیل کم لگاتا، جس کی وجہ
سے بال ہمیشہ سیاہ گوش کے کانٹوں کی طرح کھڑے کے کھڑے رہتے اور دوسرے کو اتفاقاً
چھو جانے سے اُسے سزا دیتے، کچھ اُن کے خش خشے اور گھونگریالے پن سے پتہ چلتا کہ
ملکۂ سبا کی نسل سے ہیں۔ وہ فلسفے کا طالب علم ہونے کی وجہ سے دوسروں کے لیے مجسّم
شور ہوتے اور اپنے لیے مجسّم سکون مانگتے۔ اسنین کو بھلا جمّاں اور نورا کا یہاں
آنا کیسے بھاتا۔ لیکن وہ خاموش محض اِس خیال سے ہو رہا کہ شاید جمّاں اور نورا میرے
کوئی عزیز ہیں۔
اکثر نیچے سے گالیوں کی آوازیں، پیچوان کی گڑ گڑاہٹ ، موٹے پیٹ کے خرّاٹے
اور کھنکار کی [آواز؟] سنائی دیتی اور اسنین اپنے سلو جزم گنگناتا ہوا پکار اُٹھتا
’’ وہ نورے کو پڑ رہی ہیں بے بھاؤ کی‘‘ اور پھر وہی ’’سلّوجزم‘‘— کچھ دیر کے بعد
—ارے بچاؤ یار، خدا کی قسم مار ڈالے گا بے چارے کو وہ مونچھل۔ لیکن افسانہ نگار
داؤد اور وہمی رفیق کو مجھ سے اس بات میں اتفاق تھا کہ ان لوگوں کے یہاں آنے سے
ہماری زندگی میں رومان کی جگہ مسئلۂ حیات نے لے لی تھی۔ داؤد سوچتا تھا کہ جنھیں
مار پڑتی ہے وہ ہمیشہ مار کھانے لائق ہوتے ہیں۔ اسنین اور داؤد اِس بات پر جھگڑنے
لگتے— اور میری حالت اس جنگ میں ایسی ہوتی ، جیسے دو بڑے ملکوں کی جنگ میں کسی غیر
جانب دار یا بفر
(BUFFER) ریاست کی ہو سکتی ہے۔
ایک بات پر ہم چاروں متفق تھے کہ ماں باپ سے دور، نظم ونسق سے کوسوں پرے،
رات کے ایک ایک بجے جب ہم گلیاں جھانکتے، ہانپتے کانپتے، اپنے مکان کی طرف آتے، تو
ہماری سیڑھیاں اُن لوگوں کی وجہ سے آخری تنکا ثابت نہ ہوتیں۔ درمیانی کوٹھری کا
دروازہ ہمیشہ کھلا ہوتا اور دِیے کی روشنی نورِ ہدایت کی طرح ہمیں ہمارے ازلی گھر
کی راہ دکھاتی، جہاں ہمیشہ دنیائے بازار کے دھول دھپّے، گالی گلوچ، سردی اور گرمی
کے خلاف دوستوں کی محبت ، والدہ کے پیار سے بھرا ہوا خط ، لحاف اور بجلی کا پنکھا
میّسر آتے ہیں۔ جمّاں اور نورا خدا جانے کوئی مُغ بچیّ تھے جو ساری رات آتش پرستی
کرتے تھے۔ لیکن کچھ بھی ہو، ہمیں رات کو سیڑھیوں میں دِیے کی روشنی چاہیے تھی اور
اِس سلسلے میں ہم مُغ پرستی تک کے لیے تیار تھے اور خلاف اس کے نو کروڑ صلواتیں
اُس چودھری کو سناتے جو ہمیں سیڑھیوں میں ایک بجلی کا ہنڈا تک لگوا نہیں دیتا تھا۔
خدا جانے میرے کہنے پر چودھری ، جمّاں اور نورے کی درمیانی کوٹھری میں سپیدی اور
کرائے میں تخفیف کیسے کر دیتا۔
ایک دن میں اور اسنین رات کے دو بجے گھر لوٹے۔ اُن دِنوں شہر میں ایک صنعتی
نمائش آئی ہوئی تھی۔ بس اُس کی کارنیوال میں ہم ’’تیرو تفنگ‘‘ کا ایک کھیل کھیلتے
رہے۔ گھر لوٹے تو نہ صرف نیم چھتے کا دِیا جل رہا تھا، بلکہ مُغ بچے جاگ بھی رہے
تھے۔ جرمن سلور کی کٹوری کے عین اوپر دیوداری تختی پر ایک سیاہ سیٹلگ ٹائپ یعنی
شولنگ سا نیچے کی طرف اُمڈ رہا تھا— —اور نورا، جمّاں کی ٹانگ دبا رہا تھا—— اسنین
کے [اندر؟] ایک اشتراکی بھی تھا اور آپ جانتے ہیں کہ اشتراکی خواہ وہ عملی ہو یا
کرسی نشین، دبیل ہونے یا لفظ ’’ایکسپلائیٹیشن‘‘ سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔ ’’تیرا زہر
بند ہو جائے گا‘‘ اسنین نے آنکھیں نکالتے ہوئے زیرِ لب کہا۔ ’’سارا دن بے چارہ روڑی
کوٹتے کوٹتے تھک گیا ہو گا، پھر گھر کا دھندا کیا ہے، اور اب ہے کہ رات کے دو بجے
تک اُس کے پانو داب رہا ہے۔‘‘
شاید اسنین بول پڑتا، لیکن جمّاں نے اُس کے کانوں میں ایک خوش خبری ٹھونس
کر بات آئی گئی کر دی۔ اور وہ خوش خبری یہ تھی کہ ڈاکیا اسنین کا منی آرڈر لے کر آیا
تھا، اگرچہ اُسے نہ پاکر لوٹ گیا ۔ اسنین پیسوں کے متعلق سوچنے لگا — اشتراکی کوبھی
کسی دبیل کے بچانے سے جو تسکین ہوتی ہے ،اُس سے کہیں زیادہ باعثِ راحت اُسے گھر سے
آیا ہوا منی آرڈر ہوتا ہے۔
’’کتنے کا تھا‘‘ اسنین نے اس اُمید پر سوال کیا کہ شاید مُغبچوں
میں سے کسی کو پتا ہو، دراصل ہم دونوں کو اُمید نہ تھی کہ مالیت کے متعلق یہ لوگ
جانتے ہوں گے۔ لیکن ’’پچاس کا ہے… اور میر پور خیر سے آیا ہے ’’نورے نے قدرے اونچی
آواز سے کہا۔ ’’واہ رے نورے!‘‘ ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنس دیے ’’ارے
بڑا بدمعاش ہے تو‘ تو۔‘‘
اس کے بعد ہم رات کے سنّاٹے میں چیختے جوتوں سے شور مچاتے ہوئے اوپر چلے
گئے۔ کمرے کا دروازہ رفیق اور داؤد نے کھولا تھا۔ اندر گھستے ہوئے اسنین کے دماغ میں
پھر نورے اور اُس کے پانو دابنے کی تصویر گھوم گئی۔ اُس نے اپنی گزی کی قمیص کابٹن
کھولا اور اُسی گزی کی ٹائی کی گرہ ڈھیلی کرتے ہوئے کہا —— ’’میرے بس کی بات ہو،
تو جمّاں کو اِسی مکان کی کنگنی پر کھڑا کرکے نیچے دھکاّ دے دوں۔ اور صبح سب سے
پہلے اِس کی موت پر آنسو بہاتے ہوئے زندگی کی صحیح تصویر پیش کر دوں، ہے نا؟ اور دیکھو
کم بخت نورے کو مالیت کس طرح یاد ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ پیسے کہاں سے آئے تھے۔‘‘
میں نے کہا ’’کون جانے، اُسے یہ بھی پتا ہو کہ کہاں پیسے رکھے جاتے ہیں۔‘‘
اسنین نے اپنے سیاہ گوش سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’ارے یار سچ مچ
— کہیں ہم پر بھی ہاتھ صاف نہ کر جائیں۔‘‘ اس کے بعد میں داؤد کے بستر میں گھُس گیا۔
میری چارپائی کی پائینتی ٹوٹ گئی تھی اور چارپائی اچھا خاصا کنواں بن گئی تھی۔ صبح
اُٹھتے ہی بے تحاشا گالیوں اور مار دھاڑ کی آواز سنائی دی اور پھر وہی —— ’’ارے تو
نے اِتنی کنکی ضائع کر دی ہے، کھچڑی کے لیے تو اِتنے سے چاول ہی کافی تھے— ابے او
کتّے کے بچّے ——‘‘
اسنین بولا۔ ’’بھئی اب مجھ سے نہیں رہا جاتا۔‘‘ داؤد کا نظریہ بہ دستور،
رجعت پسندانہ تھا—— جو مار کھانے کے لائق ہوتے ہیں، اُنھیں مار ہی پڑنی چاہیے۔ لیکن
آج وہ بھی میرے اور اسنین کے ساتھ متفق ہو رہا تھا کہ بے چارے کے ساتھ صریحاً زیادتی
ہو رہی ہے۔ داؤد نے ایک افسانے کو میز پر رکھا اور دوسرا افسانہ چھیڑ دیا۔
’’ارے تو بُلاؤ تو اُس نورے کو۔‘‘ اُس نے مجھے تحکّمانہ انداز میں
کہا—
لحاف کا اندرونی حصّہ باہر کی برفانی سردی کے مقابلے میں کم تکلیف دہ تھا،
لیکن اِس تحکّمانہ انداز اور نورے کے پِس جانے کے خیال نے اُس میں وہ گرمی پیدا کر
دی کہ میں لحاف کو پھینکے بغیر رہ نہ سکا اور میں نے نورے کو بلایا۔ نورا منھ میں
کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ لیکن داؤد کے سامنے آ کر وہ یوں کھڑا ہو گیا ،جیسے اردلی اپنے
صاحب کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔
داؤد نے بات شروع کی— ’’ابے نورے تمھارے کتنے ہاتھ ہیں؟‘‘ داؤد ہمیشہ ایسی
بات سے سلسلۂ گفتگو شروع کرتا تھا جس میں حیرت کا عنصر موجود ہو۔ نورا اِس سوال پر
قدرے حیران ہوا۔ اُس نے ایک لمحے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھا، جیسے کتّا زمین پر بیٹھنے
سے پہلے اُسے سونگھ لیتا ہے اور پھر وجدانی طور پر ایک موافق ماحول کی بو‘ پاکر
بولا۔ ’’دو!‘‘
’’جمّاں کے کتنے کان ہیں؟‘‘
’’دو!‘‘
’’تمھاری کتنی آنکھیں ہیں؟‘‘
’’دو!‘‘
’’اور جمّاں کی؟‘‘
’’دو!‘‘
’’تم کیا کماتے ہو؟‘‘
’’یہی بیس ساڑھے بیس روپئے کے قریب بنا لیتا ہوں مہینے میں!‘‘
’’اور جمّاں کیا بناتا ہے؟‘‘
’’سولہ سترہ روپئے۔‘‘
’’تو بھاگ جاؤ یہاں سے احمق کہیں کے ۔ تمھاری قسمت میں یہی لکھا
ہے کہ مار کھاتے رہو۔ راستے میں پڑے ہوئے پتھّروں کی طرح راہ گیروں کی ٹھوکریں
کھاؤ—— جاؤ——!‘‘
نورے نے چادر کو اپنے گرد لپیٹا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے چلا گیا۔ اسنین نے
اور میں نے داؤد کی طرف دیکھتے ہوئے ایک بلند اور ناشائستہ سا قہقہہ لگایا— اسنین
بولا ’’داؤد تم بھی عجیب آدمی ہو۔ باتیں کرنے میں بھی تمھارے اپنے افسانے کا [ہی؟]
انداز ہے۔ ایک نفسیاتی اختتام پر آ کر بس کر دیا۔ ارے نورے کے سے آدمی کو ہیمرِنگ
چاہیے——ہیمرِنگ — سمجھے؟— عوام ہیمرِنگ چاہتے ہیں۔ بات اُن پر واضح اور دُہرا
دُہرا کر ٹھونسنی چاہیے۔ اُن کی نفسیات یہی ہے کہ زیادہ نفسیات سے کام نہ لیا
جائے۔ صاف کہو بھئی، اِس طرح کے ہاتھ، کان اور کمائی ہوتے ہوئے بھی جُمّاں سے کیوں
دب رہے ہو—؟‘‘
اس پر ایک اور فرمائشی قہقہہ پڑا۔ رفیق ہنستے ہوئے اس مُرغے کی طرح اُچھلا
جس کی گردن ایک ہی ضرب میں بدن سے الگ کر دی گئی ہو۔ ہم نے پھر نورے کو بُلایا۔
اور جمّاں کے خلاف اُس کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ نورے میں ایک حیرت انگیز تبدیلی
واقع ہو گئی۔ اُس کے جسم کے پٹھّے پھڑکنے لگے۔ چادر میں سے اُس نے اپنے لمبے لمبے
بازو نکال لیے اور جمّاں کے ساتھ لڑائی کا تصوّر ذہن میں لاتے ہوئے بولا —— ’’سچ
مچ اُس نے مجھے نامرد سمجھ رکھا ہے۔ ایک دفعہ وہ چکری دوں کہ …‘‘ اور آج نورے پر
حقیقت کا انکشاف ہونے لگا اور وہ جان سکا کہ اُسے مار پڑ رہی ہے۔ اُس کے منھ کے ایک
طرف کف کی ایک نفرت انگیز مگر متبرّک ، تخریبی مگر تعمیری سی تحریر دکھائی دینے لگی۔
اسنین نے بالکل لینن کا سا کام کیا۔ ایک آدمی کے ذہنِ لاشعور میں یہ احساس بھر دیا
کہ اُسے دبایا جا رہا ہے۔
نورے کے جانے کے بعد رفیق ہمیشہ کی طرح پوچھنے لگا ’’تمھارا کیا خیال ہے،
پھُنسی تو نمودار نہیں ہو گی؟ ڈاکٹر پالی نے کہا تھا کہ تین ہفتے سے چھے ہفتے تک میعاد
ہوتی ہے۔ اور اب چوتھا ہفتہ جا رہا ہے اور کوئی نشان نہیں۔ اور میں کل کی نسبت آج
کمزور دکھائی نہیں دیتا کیا؟‘‘ میں نے رفیق کو یقین دلاتے ہوئے کہا—— ’’بھئی پھُنسی
نہیں ہو گی۔‘‘ لیکن وہ کہنے لگا ’’تم صرف میرا جی رکھنے کے لیے کہہ رہے ہو— خدا کی
قسم کھاؤ—‘‘ میں نے تنگ آ کر ہمدردی سے عاری اتنی اونچی اور تضحیکی آواز میں قسم
کھائی کہ رفیق نے مغموم و مایوس ہو کر اُس کا ذکر بند کر دیا— لیکن صرف اُسی دن کے
لیے۔
بڑے مزے کی بات ہوئی۔ نورا یہاں تو سیخ پا ہوا ،لیکن جُمّاں کے پاس گیا تو
بولا — ’’دیکھو بھیّا! یہ بابو لوگ مجھے تمھارے خلاف اُکساتے ہیں۔ کہتے ہیں تم اُس
کے دبیل ہو۔ اب بھلا میں کہاں ہوں تمھارا دبیل ——؟‘‘ اور بہ دستور اُٹھاؤ چولھا
صبح کی ٹاپوں [کذا] کے لیے سلگانے لگا۔
داؤد کہنے لگا’’اِس میں سارا قصور لینن یا اسنین کا ہے۔ اگر میرا افسانوی
طریقہ برتا ہوتا تو بات پھر لوٹ کر اُس کے ذہن میں آتی، چوٹیں لگاتی اور بس جاتی۔
اور جہاں [کذا] جُمّاں کا نام لینے کی بھی ضرورت نہ ہوتی— یہ فرق تھا لینن اور
گورکی میں— اسنین اور داؤد میں۔‘‘ رفیق نے یاس آلودہ نگاہیں اوپر اُٹھائیں اور
موضوع کو ٹانگ سے پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹتے ہوئے بولا ’’تہذیب حاضر، جسم اور روح کی
بیماریاں پیدا کرنا جانتی ہے۔ اِس کے پاس پھٹکار ہے لیکن علاج اور تشفّی نہیں۔ مریض
کے دوسرے سوال کا جواب دینے کا صبر اور حوصلہ بھی نہیں۔ اور یہ آئینہ کہاں تک
مددگار ہے۔ دیکھو مجھے اِس میں اپنا رنگ زرد دکھائی دیتا ہے۔ میں اِسے توڑ ڈالوں
گا‘‘— اور ’’نیوراس تھینک‘‘
[NEUR-AS-THENIC] 1 رفیق نے آئینے کو باہر پھینک کر اُس
کے ٹکڑے کر دیے۔
اب ہم جُمّاں سے جھینپنے لگے۔ لیکن جُمّاں—— ’’بیٹا باہر تو نکل‘‘ کے انداز
کی سی باتیں کرنے لگا۔ ہم نے بھی دنٹر پیلے، مالش کی، موگدر اُٹھا کر پٹھّوں کا
مظاہر ہ کرتے ہوئے کہا—— لے نکلتے ہیں، کر لے جو کرنا ہے۔ اور جمّاں مرعوب ہو گیا۔
نورے کے متعلق ہم نے سوچا ، نورا جائے جہنّم میں ۔ ہمیں اُس سے کیا غرض؟ داؤد کا
نقطۂ نگاہ درست ہے، بلکہ اُسے جتنی پڑیں تھوڑی ہیں—!
ہمیں نورے کی اِس بیماری سے متعلق ابھی تک حیرت تھی۔ لیکن ہم نے احساس کمتری
کاسا رُسوائے عام نام دے کر کمال بے صبری اور بے حوصلگی سے اپنے ذہن کو فارغ کر دیا——
ایکا ایکی ایک دن جُمّاں، نورے کو اپنی دوستی اور رفاقت کے قابل نہ سمجھ کر علاحدہ
ہو گیا۔ اُس وقت نورے نے جمّاں کی منّتیں کیں، آنسو بہائے، لیکن جمّاں تھا کہ
برابر کہے جا رہا تھا ’’تم اس قابل نہیں ہو کہ تمھارے ساتھ کوئی رہے۔‘‘
داؤد چیخا، اسنین نے نفسیات کی ایک کتاب جلائی اور ہم دونوں نے مل کر ایک
بے ربط اور بے سُری آواز میں قومی [گانا؟] ’’یا رب سلامت رہے ہمیشہ فرماں روا
ہمارا‘‘ گایا۔ گانے کے بعد رفیق نے کہا کہ دیکھو بھئی سستی ہی جان چھوٹتی ہے۔ مگر
نورا ہے کہ مانتا ہی نہیں—— ابے نورے——پھر آہستہ آواز اور دانت پیس کر— ابے نورے —
اور نورا ہے کہ صدیوں سے غلام چلے آنے والوں کی طرح ،غلامی ہی میں نجات سمجھنے لگا
ہے۔ اپنے پانو کی بیڑی کو ہی اپنا زیور سمجھتا ہے۔
جُمّاں چلا گیا اور ایک شخص فر و کا (فاروق) نے جمّاں کی جگہ لے لی۔ وائے
قسمت ! اب نورا فروٗکے کا غلام تھا۔ لیکن تعجب کی بات تھی کہ ایک دن نورے نے
احتجاج کیا۔ بات یوں ہوئی کہ فروٗکے نے کسی بات سے دُکھی ہو کر نورے سے کہا — ’’جا
تیرا خانہ خراب ہو۔‘‘
نورے کو کچھ یاد آ گیا۔ آنسو تھے کہ بے تحاشا اُمڈ رہے تھے۔ ایک بات کا
اضافہ ہوا۔ روتے روتے گھگھی بندھ گئی۔ نورا بار بار یہی کہتا تھا کہ تو نے مجھے
مار لیا ہوتا، پیٹ لیا ہوتا، لیکن یہ الفاظ مجھ سے نہ کہے ہوتے۔ فروکے نے نورے کو
دِلاسا دیا ۔ لیکن نورا تھا کہ برابر روئے جا رہا تھا۔ ہائے تو نے مجھے یہ نہ کہا
ہوتا۔
اُسے منانے کے لیے فروکا گھر بیٹھ رہا۔ اور گیرج شاپ، جہاں وہ کام کیا کرتا
تھا، نہ گیا۔ ہم نے بھی کالج سے چھُٹّی کی اور نورے کو کریدنے لگے۔ جب نورا بولنے
کے قابل ہوا تو کہنے لگا— ’’چھوٹے ہوتے میرے ماں باپ مر گئے۔ بھائی نے پالا پوسا
اور جوان کیا۔‘‘
اور نورا پھر رونے لگا۔ اُس کی آنکھیں درمیانی کمرے کے ایک پُشتے پر جمی
ہوئی تھیں لیکن گردشِ ایّام پیچھے کی طرف دوڑ گئی تھی اور نورا تصوّر میں اپنے
بھائی کے پاس کھڑا تھا۔ کچھ دیر کے بعد خود ہی نورے نے بات ختم کرنے کی اُکساہٹ
محسوس کی اور بولا ’’مجھے مرغے پالنے کا بہت شوق تھا ، تو بڑے بھیّا نے مرغ مہیّا
کیے۔ میں انڈا بوسکی کی چھانٹ دار قمیص پسند کرتا تھا، تو اُس نے بہت سی ایسی قمیصیں
سِلا دیں۔ گھر میں بھاوج کو زیادہ باجرے کی روٹی پکانے کا حکم ہوتا تھا کیوں کہ وہی
روٹی مجھے پسند تھی۔ لیکن میں اُس کے پاس نہ رہا اور بھاگ گیا۔ ایک آٹے کی مشین پر
چھے ماہ گزار کر لوٹ آیا۔ پھر بھاگا، پھر لوٹ آیا۔ اور آخر میں نے بھائی کو اِس
حالت میں چھوڑا جب کہ اُس پر فالج گرا تھا۔ اُس نے تنگ آ کر مجھے بد دعا دی جو کہ
آج مجھے یاد آ رہی ہے۔ اُس نے کہا نوری!— وہ مجھے ہمیشہ لاڈ سے نوری ہی کہا کرتا
تھا—— یہاں کچھ دیر کے لیے رکنے کے بعد فوراً بولا، اُس نے کہا ’’نوری ! تو زندگی
میں کسی کا سگا نہیں بنا، جا تیرا سگا بھی کوئی نہیں بنے گا۔‘‘
اُس کے بعد کچھ دیر خاموشی رہی، جس کے بعد نورے نے کہا ’’وہ دن اور آج کا
دن میرا تو کوئی سگا نہیں بنتا اور آج فروکا کہہ رہا ہے ’’جا تیرا خانہ خراب
ہو!‘‘— میں اپنے دوست کے لیے کیا نہیں کرتا۔ کمینے سے کمینہ کام بھی کرتا ہوں اور
جب میرا کوئی دوست مجھے چھوڑتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ یہ سب بھیّا بلاقی کی بد
دُعا کا اثر ہے—!‘‘
رفیق ، داؤد ، اسنین اور میں، چاروں نے یہ بات سُنی اور دم بہ خود ہو کر رہ
گئے۔ ’’اِسے نورا کہتے ہیں‘‘ داؤد بولا۔ اسنین نے گہری سوچ سے سر اُٹھایا اور
بولا۔
’’اپنی دِق سے مرتی ہوئی ماں کی میں نے خدمت کی۔ اور مرنے سے
پہلے اُس نے کہا۔ ’’جا بچّہ ! تو زندگی میں بڑا سُکھ پائے گا۔‘‘ اور اسنین ، نورے
ہی کے انداز میں بولا ’’—وہ دن اور آج کا دن ،جب کوئی پُرمسرّت لمحہ میری زندگی میں
آتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ میری ماں کی دُعائے خیر کا اثر ہے—!‘‘
رفیق بولا’’لوگوں کو منھ سے بات نکالتے ہوئے کچھ سوچ لینا چاہیے، تم نہیں
جانتے مجھ جیسے نیوراس تھینک، کے لیے ایک معمولی سا فقرہ کیا معنی رکھتا ہے —‘‘اُس
وقت داؤد اور میں خاموش تھے— شاید ہم بھی اپنی [کذا] ماضی کی راکھ میں چند کوئلوں
کو اُتھل پتھل رہے تھے۔
(’’افکار‘‘ کراچی ۔ خاص نمبر۔ مئی و جون 1951)
٭٭٭
No comments:
Post a Comment