آ۔ کی کہاوتیں
( ۳۱ ) آدھی کو چھوڑ ساری کو جائے، آدھی رہے نہ پوری پائے :
جو تھوڑ ے پر صبر و شکر نہیں کرتا اور ہوس میں زیادہ کی طرف دوڑتا ہے وہ اکثر نہ صرف یہ کہ زیادہ نہیں پاتا بلکہ اپنے پاس سے بھی کھو بیٹھتا ہے۔
(۳۲ ) آدمی جانے بسے سے، سونا جانے کَسے سے :
بسے سے یعنی قریب رہ کر، کسے سے یعنی کسوٹی پر کس کے۔ کسوٹی ایک طرح کا پتھر ہوتا ہے جس پر سونا گھسا جاتا ہے اور اُس نشان کی تیزی سے سونے میں ملاوٹ کا اندازہ کیا جاتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی کے ساتھ رہا نہ جائے اس کی اصلیت اور خصلت کا پتا نہیں چلتا جیسے بغیر کسوٹی پر کَسے سونا نہیں پرکھا جا سکتا۔
( ۳۳ ) آدھے سیر کے برتن مین سیر نہیں سماتا :
کلو گرام سے پہلے تولنے کے لئے سیراستعمال ہوتا تھا جو تقریباً آدھے کلو گرام کے برابر ہوا کرتا تھا۔کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ کم اہل آدمی سے بڑے کام کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔
( ۳۴ ) آدمی کا شیطان آدمی ہے :
کوئی شخص اپنی بری عادات لے کر پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ دوسرے آدمیوں کی صحبت میں ہی خراب ہوتا ہے۔
( ۳۵ ) آدھی کو چھوڑ ساری کو جائے،آدھی ملے نہ ساری پائے :
یہ کہاوت لالچ کی اُس صورت کے حوالے سے ہے جہاں زیادہ فائدہ کے لالچ میں انسان کم فائدہ کو چھوڑ دیتا ہے۔ پھر اس کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگتا اور وہ ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
(۳۶ ) آدھا تیتر، آدھا بٹیر :
یعنی ڈانوا ڈول، غیر معتبر، ایسا شخص جو کبھی ایک رنگ میں نظر آتا ہو اور کبھی دوسرے میں۔
( ۳۷) آدمی آدمی انتر، کوئی ہیرا کوئی کنکر :
انتر یعنی فرق۔ ہر شخص ایک سا نہیں ہوتا ہے۔ آدمی آدمی میں فرق ہوتا ہے۔ کوئی ہیرے کی طرح بے بہا اور بلند مرتبہ ہوتا ہے اور کوئی کنکر کی طرح بے وقعت اور گرا پڑا۔
( ۳۸ ) آدمی کیا جو آدمی نہ پہچانے :
دانشمند وہی ہے جو آدمی آدمی میں تمیز کر سکے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
No comments:
Post a Comment