قسم
خدا کی تیری انجمن سے گزرے ہیں
یہ
رنگ و بو جو تیرے گیسووں کا تلچهٹ ہیں
طلوع
صبح کی پہلی کرن سے گزرے ہیں
ہزار
پهول کهلے اپنا قافلہ نہ رکا!
دلوں
پہ داغ لئے ہم چمن سے گزرے ہیں
نہ
کوئے یار کی چاہت نہ سوئے دار کی دهن
بس
ایک ابروئے دوراں شکن سے گزرے ہیں
ابهی
نہ شمع جلاو ہمارے مدفن پر
کہ
زندگی کے اندهیرے وطن سے گزرے ہیں
ہمیں
سے منزل افکار ہے جواں ساغر
ہمیں
جو وادی شعر و سخن سے گزرے ہیں
No comments:
Post a Comment