الف ۔ کی کہاوتیں
(۱۳۶) ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند :
یہ کام تو بس تو ہی کر سکتا تھا اور مرد ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔بہادری یا بڑے کام کرنے والے کی تعریف میں یہ کہاوت بولتے ہیں۔
(۱۳۷) ایک پَر کے سَو کوّے بناتا ہے :
بہت چالاک اور شاطر ہے کہ ذرا سی بات کو بڑھا چڑھا کر اپنا مطلب نکال لیتا ہے۔ کہاوت کا ایک مطلب ’’بات کا بتنگڑ بنانا‘‘ بھی ہے۔
(۱۳۸) ایک سر ہزار سَودا :
سودا یعنی فکر و پریشانی۔ آدمی کی ایک جان کے ساتھ سیکڑوں فکریں لگی ہوئی ہیں۔
(۱۳۹) ایک تو دیوانہ، اِس پر آئی بہار :
مشہور ہے کہ دیوانے آدمی کی دیوانگی بہار آنے پر بڑھ جاتی ہے۔ یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے جب کسی شخص کا غصہ یا ایسی ہی کوئی اور خراب عادت کسی خارجی اور غیر متعلقہ وَجہ سے بڑھ جائے۔
(۱۴۰) ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دِگر :
یہ بھی عشق کے دوسرے غموں کے ساتھ ایک اور غم لگا ہوا ہے۔ یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے جب صبر و شکر کے طور پر یہ کہا جائے کہ جہاں اتنی مصیبتیں ہیں وہاں یہ ایک اور سہی۔
(۱۴۱) ایک انار، سو بیمار :
طاقت پہنچانے کی غرض سے مریض کو انار کا مقوی رس پلایا جاتا ہے۔ اگر انار ایک ہی ہو اور مریض کئی تو پھر یہ سوال پیدا ہونا یقینی ہے کہ کس کو کتنا دیا جائے یا دیا بھی جائے کہ نہیں۔ جب آدمی تو ایک ہی ہو لیکن اس کی خدمات کی بہت سے اشخاص کو ضرورت ہو تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
(۱۴۲) ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹّے :
یعنی ایک ہی خصلت کے لوگ جو ملی بھگت سے کام کریں اور اپنا ہی مفاد پیش نظر رکھیں۔ ’’ایک ہی آوے کے برتن‘‘ بھی اسی معنی میں ایک اور کہاوت ہے۔
No comments:
Post a Comment