یاد
بھولے ہوئے یاروں کے کرم آتےہیں
لوگ
جس بزم میں آتے ہیں ستارے لے کر
ہم
اسی بزم میں بادیدہءِ نم آتے ہیں
اب
ملاقات میں وہ گرمیءِ جذبات کہاں
اب
تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں
قرب
ساقی کی وضاحت تو بڑی مشکل ہے
ایسے
لمحے تھے جو تقدیر سے کم آتے ہیں
میں
بھی جنت سے نکالا ہوا اک بت ہی تو ہوں
ذوق
تخلیق تجھے کیسے ستم آتے ہیں
چشمِ
ساغر ہے عبادت کے تصور میں سدا
دل
کے کعبے میں خیالوں کے صنم آتے ہیں
No comments:
Post a Comment