ستاروں
سے شکایت کر رہے ہیں
جنوں
کے تجربوں کی نگہداری
بہ
اندازِ فراست کر رہے ہیں
ترے
شانوں پہ تابندہ نشاطے
بہاروں
کی سخاوت کر رہے ہیں
نہ
دے ہمت ہمیں مدہوشیوں کی
ذرا
پی کر عبادت کر رہے ہیں
سحر
کے بعد بھی شمعیں جلاؤ
کہ
پروانے شرارت کر رہے ہیں
خداوندانِ
گلشن یہ شگوفے
بہاروں
سے بغاوت کر رہے ہیں
مرتب
غم کے افسانوں سے ساغر
مسرت
کی حکایت کر رہے ہیں
(ساغر
صدیقی)
No comments:
Post a Comment