ت ۔ کی کہاوتیں
( ۷) تلوار کا زخم بھر جاتا ہے، بات کا نہیں بھرتا :
بات کا زخم بھرنے کو ایک عمر چاہئے اور بعض اوقات یہ بھی ناکافی ہوتی ہے۔
(۸) تمھارے نیوتے کبھی نہیں کھائے :
نیوتا یعنی دعوت۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس فقط باتیں ہی باتیں ہیں ۔جب وقت پڑتا ہے تو آپ کی تہی دامنی کھل جاتی ہے۔
( ۹) تم روٹھے، ہم چھوٹے :
یعنی اگر تم نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں تو پھر ہمارا تمھارا ساتھ بھی ختم ہو جائے گا۔
(۱۰) تم اپنے حال میں مست، ہم اپنی کھال میں مست :
یہ صبر و شکر کا اظہار بھی ہے اور ایسے شخص کی بات کا جواب بھی جو اپنی دولت کے نشہ میں دوسروں کو کم تر سمجھتا ہو۔
(۱۱) تمباکو کا پِنڈا ہے :
پِنڈا یعنی بدن۔ تمباکو کا پنڈا سیاہ فام شخص کو کہتے ہیں۔
( ۱۲ ) تن سکھی تو من سکھی :
یعنی اگر تندرستی ہے تو دل بھی بشاش رہتا ہے۔ سالکؔ لکھنوی کا شعر اسی
مضمون کو بیان کرتا ہے:
تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ تندرستی بہت غنیمت ہے
(۱۳ ) تن پر نہیں لتّا،مسّی ملے البتہ :
لتّا یعنی پھٹا پرانا کپڑا۔مسّی ایک طرح کا سفوف ہوتا ہے جو پہلے زمانے میں عورتیں مسوڑھوں پر ملتی تھیں۔ اس سے مسوڑھے سیاہ ہو جاتے تھے۔ خیال یہ تھا کہ کالے مسوڑھوں میں چمکتے ہوئے دانت خوبصورتی میں اضافہ کریں گے۔ کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ مفلسی کاتو یہ حال ہے کہ تن ڈھکنے کو کپڑا میسر نہیں ہے لیکن دنیا کو دکھانے کے لئے مسّی کا سنگھار ضروری ہے۔گویا کہاوت چھچھورے پن کی مذمت کر رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment