فریب_ زندگی کی آگ میں
انسان جلتے ہیں
دلوں میں عظمت_ توحید کے
دیپک فسردہ ہیں
جبینوں پر ریا و کبر کے
فرمان جلتے ہیں
ہوس کی باریابی ہے خرد
مندوں کی محفل میں
روپہلی ٹکلیوں کی اوٹ میں
ایمان جلتے ہیں
حوادث رقص فرما ہیں قیامت
مسکراتی ہے
سنا ہے ناخدا کے نام سے
طوفان جلتے ہیں
شگوفے جھولتے ہیں اس چمن
میں بھوک کے جھولے
پہاروں میں نشیمن تو بہر
عنواں جلتے ہیں
کہیں پازیب کی چھن چھن میں
مجبوری تڑپتی ہے
ریا دم توڑ دیتی ہے
سنہرے دان جلتے ہیں
مناؤ جشن مے نوشی بکھیرو
زلف_ مے خانہ
عبادت سے تو ساغر دہر کے
شیطان جلتے ہیں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment