Monday 19 June 2017

"Maharani Ka Tuhfa" A Famous Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi


مہارانی کا تحفہ
راجندر سنگھ بیدی
 اویر پور کو راجا شو سے ہمت نے فتح کر لیا تھا۔ مگر اصلی فتح اُس کی رانی، رمتا کی تھی، جس نے لوگوں کے دِلوں کو مسخر کر لیا تھا۔وہ رعایا کے کسی ایک فرد کی خاطر اپنی جان تک سے گزر جانا جانتی تھی۔ پہاڑی لوگ، جن کے دل میں بغاوت کی خفیف سی جنبش کے وقت اُن کی جنم بھومی— پہاڑوں [کے] نا قابلِ گزر نشیب و فراز، جنگل اور غار ماں کی گود کی مانند کھلے رہتے تھے، اب بغاوت کا خیال ہی دل میں کیوں لاتے کہ اُن کے لیے ایک اور ماں کی گود کھلی تھی — رمتا اُن کی مصیبت و تنگ حالی کو خود دیکھا اور سُنا کرتی۔
شام کے وقت سورج کی آخری شعاعیں قلعے [کی] محرابوں سے چھن کر مشرق کی طرف یوں پڑ رہی تھیں، جیسے پہاڑ کی چوٹی سے سنہری پانی چوکور سی دھاروں میں گر رہا ہو۔ بریلے کے اونچے پہاڑی درخت ، چٹانوں کے پیچھے سے ایڑیاں اُٹھا کر، قلعے سے بلندی کا گلہ کرتے ہوئے، سورج کی موت کے راگ کو مکمّل خاموشی سے سُن رہے تھے۔ مہارانی رمتا نے جھروکے کے پیچھے سے سر اُٹھا کر محرابوں کو دیکھا۔ سنہری پانی کے آخری قطرے نظر آ رہے تھے اور چشمے سے اُمڈتی ہوئی سنہری دھاریں بھی اب مختصر ہوتی جاتی تھیں۔ مگر راج پروہت کا جلوس ابھی تک قلعے کے جھروکے کے نیچے نہیں پہنچا تھا۔
بالآخر جلوس پہنچ ہی گیا۔ طلب و مسرّت سے دیوانے لوگ ، گھنٹیوں کو یوں کوٹ رہے تھے جیسے کوئی نحیف بوڑھا، تقاضائے عمر کی وجہ سے کسی ذاتی دشمن سے بدلہ لینے کے تخیّل میں ہاتھ کی ہتھیلی پر، دانت پیستے ہوئے، زور زور سے مُکّے مارتا ہے، یا جس طرح سمندر کی غضب ناک لہریں چٹانوں سے سر پھوڑ کر ایک دل کو بٹھا دینے والی آواز نکالتی ہیں —— گانْو کی مالن کی چاندی تھی۔ لوگ پیسے دے کر بھی پھول بھکاریوں کی مانند مانگ رہے تھے—— راج پروہت سے اُنھیں دِلی عقیدت تھی۔ راج پروہت کے والدین نے اُسے روحانی تعلیم دلانے کے لیے بچپن ہی سے ہمالیہ کے دامن میں پھیلے ہوئے جنگلوں میں بھیج دیا تھا —— اُسی جگہ پر جہاں برسوں سے اب تک رِشی، پرانایام کے ذریعے سانس چڑھائے پڑے ہیں۔ صرف اُن کے بدن کی ہڈّیوں کے ڈھانچے میں، ایک نہایت باریک چمڑے کے نیچے، دل کی ایک خفیف سی حرکت اِس بات کا یقین دلا رہی ہے کہ اِن پنجروں میں کسی مخصوص موقعے پر روح اپنے پاک احساس کے ساتھ عود کر آئے گی۔
راج پروہت، بیس برس کی کڑی تپسیّا کے بعد، تیس برس کی عمر میں واپس لوٹ رہے تھے۔ اُن کے بشرے پر روحانی تجلّی عیاں تھی۔ آنکھیں شباب کی آمد آمد کی وجہ سے سرخ تھیں— مہارانی رمتا نے نہایت غور سے راج پروہت کو دیکھا۔ مہاراجا اور مہا رانی دونوں نے پروہت جی کو نمسکار کی اور جلوس آہستہ آہستہ گزر گیا۔
رمتا جھروکے سے اُٹھی اور حسب معمول چاند کی چاندنی میں شہر کا نظارہ کرنے کے لیے قلعے [کی] محرابوں کے پیچھے کی طرف بڑھی۔ چاند نے رات کی سیاہ چادر پر اپنی چاندنی پگھلا کر بچھا دی تھی۔ جس جگہ رانی رمتا کھڑی تھی، وہاں پاس ہی ایک دیوان خانہ ہونے کی وجہ سے چاند کی روشنی نہ پہنچی تھی اور اِسی لیے اندھیرے میں جاتی ہوئی رمتا کی توجّہ دیوان خانے کی روشن قندیلوں نے اپنی طرف کھینچ لی۔ رمتا اُس طرف بڑھی۔ باندیاں مورچھل لینے کے لیے دوڑیں—رانی کو دل پر ایک بوجھ سا معلوم ہوا۔ اتفاق سے درباری گویّا بھی دیوان خانے میں بیٹھا تھا۔ اُس کی طرف دیکھ کر مہارانی نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’چندیر ! گاؤ گے نہیں کیا؟‘‘
’’گاؤں گا—مہارانی جی! کیا گاؤں؟‘‘
’’یہ تمھیں معلوم ہو۔کچھ سمے کے متعلق [مطابق؟]گاؤ‘‘۔
چندیر نے جھک کر دیکھا۔ پاس کھڑی رمتا کی آنکھوں میں اُسے کچھ بے چینی کی لہر سی معلوم ہوئی۔ اُس نے چاہا کہ اِن ہی بے چینی کی لہروں کو اُٹھا کر وہ اپنا راگ، اپنے ہنر کے مطابق شروع کرے اور اسی بے چینی کو بے چین تر بناتا ہوا، سکوت کی مملکت میں داخل ہو کر، مہارانی سے ایسا خراج وصول کرے کہ دولت جس کے پانووں میں لوٹتی ہو۔ اور اُس نے سمے کے مطابق گانا شروع کیا۔ اُس کے راگ نے پہلے آہستہ آہستہ دل کو ہزاروں خیالوں کی طرف سے ہٹا کر یک سو راغب کر دیا۔ پہلے اُس نے گایا —— ’’چاند چمک رہا ہے بادشاہ کے محل پر۔ غریب کی جھونپڑی پر۔ شیر کے غار پر ——وادیوں پر، جنگلوں، پہاڑوں اور میدانوں میں—‘‘ اور مہارانی کا دل اِس تصوّر سے زیادہ بے چین ہو گیا۔ چندیر نے ستار کی آواز کو قدرے بلند کرتے ہوئے کہا— ’’اور کھوپڑی کے ایک ٹکڑے پر، جو زمین کی اونچ نیچ یا بارش کی ریزش سے زمین سے باہر آ گئی ہے اور — ’’مہارانی کا دل پہلے سے بھی زیادہ بے چین ہو گیا۔
چندیر نے اِس بات کو دیکھا۔ اچھی طرح دیکھا اور زیادہ سنجیدگی سے گایا
’’دھرم گڑھ کا مہارانا —ظالم اور عیّاش رانا، جس کی جلتے وقت شمشان میں کھوپڑی چٹخی نہ تھی بلکہ ثابت رہ گئی تھی اور کسی کے توجہ نہ دینے کی وجہ سے زمین پر پڑی رہ گئی۔ شاید کسی نے دیکھ کر زمین میں دبا دی۔ اُس کے اوپر کی زمین پر گھاس اُگ آئی۔ جسے گائیں اور بھینسیں چرنے لگیں— ایک دن آیا۔ جب کہ اسی طرح چاند اپنی چاندنی کو یکساں طور پر بانٹ رہا تھا کہ کسان کی ہل کی نوک نے کھوپڑی کو باہر نکال دیا اور کسان نے پانو کی ٹھوکر سے کھوپڑی ایک طرف پھینک دی!‘‘
چندیر نے ستار کی آواز کو قدرے اونچا کرتے ہوئے کہا— ’’اے انسان! تیرا آغاز کیا ہے اور انجام کیا۔ زندگی کی اصلیت کیا ہے اور ہل کی نوک جس [نے] کھوپڑی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا، اپنی خاموشی کی بولی میں گانے لگی۔’’جیو ریا بِن ساجن کس کام‘‘ —اور مہارانی رمتا کی آنکھوں سے چندیر کو آنسو ٹپکتے ہوئے دکھائی دیے۔ چندیر نے ایک تڑپ اور جلن کے ساتھ اپنی ناچتی ہوئی انگلیوں کو سِتار پر سے اُٹھا لیا۔ آہ! گانے کے تخیّل رُبا شور کے بعد کی خاموشی کا لطف بھی کم دل افروز نہیں ہوتا۔
مہارانی نے گلے سے ایک قیمتی ہار اُتارا اور کہا — ’’چندیر ! تمھارے راگ کی ایک بہت کم قیمت ادا کر رہی ہوں‘‘۔ اور چندیر نے زائد سنجیدگی سے کہا:
’’ہاں—پوجیہ مہارانی جی —ہار کی، میرے راگ کے مقابلے میں، کچھ وقعت نہیں، لیکن سچ پوچھو، مہارانی ! میں، ہار اور دولت نہیں چاہتا۔ میرے راگ کی سب سے بڑی قیمت وہ آپ کے دو آنسو ہیں ،جو آپ کے خیال میں بے قیمت ہو کر فرش پر گِر گئے ہیں—!‘‘
مہارانی نے سنجیدہ مسکراہٹ سے کہا ’’کل مونگے کا دن ہے چندیر ! بیل دیو کے ماتھے پر سیندور لگ جانے کے بعد اور راج پروہت کو کھانا کھلا کر پھر اسی جگہ آنا۔ چاندنی رات ہو گی۔
سورج دھام (مندر) کے گرد ننگے پانو چکّر کاٹنے کی وجہ سے راج پروہت جی کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ وہ جنگل کی خاموشیوں سے آئے تھے۔ اُن کے کان صرف گنگا کے دل کش راگ، جو ہمیشہ گائے جانے کے باوجود ویسی ہی مٹھاس اور دل کشی رکھتا ہے، سننے کے عادی تھی۔ مندر میں آئے ہوئے لڑکے اور لڑکیوں کا شور، ڈھولک اور باجے کی آوازیں، اُن کے، مادّی شور سے نا آشنا، کانوں کو پریشان کرنے لگیں۔ پربھو راج پروہت، ماتھے پر ایک خفیف سا تیور ڈالتے ہوئے، اپنی بھاری بھرکم کھڑانووں کو ایک کونے میں رکھ کر، بیل دیو کے پاس آ بیٹھے۔ اُن کے ہاتھوں میں سیندور تھا۔ پجاری کے اشارے پر اُنھوں نے، شیو جی مہاراج کے بُت کے پاس دھرے ہوئے، سنگِ مرمر کے بیل کے ماتھے پر ٹیکا لگایا اور تمام طرف سے مونگ برسنے لگا۔
’’ٹھہریے ٹھہریے! مہارانی جی آتی ہیں۔ اُنھیں بھی مونگ ڈالنا ہے‘‘۔ چندیر جی نے جو پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، آہستہ سے کہا۔ دور سے مہارانی رمتا، سفید اور سادہ کپڑوں میں ملبوس، آنکھوں کے لیے چندن کی سی ٹھنڈک لیے موسم سرما کے بادل کی طرح آہستہ آہستہ آ رہی تھی۔ دور سے اُس کے گلابی پانو زمین پر یوں پڑتے تھے جس طرح رحمتِ ایزدی گناہ گاروں پر نازل ہوتی ہے۔ چندیر کے من مندر کے دروازے کھُل گئے۔ اُس کے دل کی دیوی آہستہ آہستہ بڑھی آ رہی تھی۔
تیتری کے پروں کی بھنبھناہٹ کی سی آواز آنے لگی، جو بعد میں جھانجروں کی موسیقی میں گُم ہو گئی۔ چندیر نے اپنے ستارے چھیڑ چھاڑ شروع کی۔ جھانجروں کی موسیقی ، چندیر کے ستار پر اُس کی انگلیوں کے ناچ کے ساتھ ساتھ رقص کر رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ موسیقی اور رقص کے اس وصال کی مثال آئندہ دنیا میں پھر کبھی نہ مل سکے گی۔
جس طرح تالاب کے پُرسکون پانی میں کنکر پھینک دیے جانے پر پانی اپنے عظیم سکون کو کھو دیتا ہے، اُسی طرح اس نئی قسم کی موسیقی نے راج پروہت کے پُرسکون دماغ میں پریشانی سی پیدا کر دی۔ مونگ ڈالتے ڈالتے ہاتھ رُک گیا۔ جھکتے وقت کمر اور گردن کے گرد لپٹا ہوا کپڑا گر پڑا۔ اُنھوں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کپڑے کو گردن کے گرد لپیٹ لیا۔ چندیر نے دیکھا کہ راج پروہت کا منھ کان [کانوں؟] تک سرخ ہو گیا۔ تھالی میں موتیا، کرنے اور گلاب کے پھولوں کے ساتھ دھوپ اور دیپک [دیا] پڑے تھے۔ جھانجروں کی موسیقی میں کھو کر راج پروہت نے کچھ کرنے کے پھول بیل دیو کی پیٹھ پر مسل دیے اور چندیر نے محسوس کیا— کہ اِس حرکت کی چنداں ضرورت نہ تھی۔
——اور جھانجروں کی آواز خاموشی کے پُر لطف راگ میں ختم ہو گئی۔ راج پروہت جی نے محسوس کیا کہ وہ اپنے فرض سے اچھی طرح سبک دوش نہیں ہو رہے۔ اُنھوں نے دل میں کہا ’’صرف روحانی تعلیم سے انسان کی ازلی بھوک نہیں مٹ سکتی۔ دنیا میں رہ کر، اُس سے سیر ہو کر، روحانی بلندیوں کو طے کرنا، صحیح معنوں میں اپنے فرائض کا انجام دینا ہے‘‘۔
دیپک کی چاندنی کو شیوجی مہاراج کے بُت کے پاس سے آرتی کے طور پر گھمانے کے بعد پروہت جی نے تھالی رکھ دی۔ مونگ سب طرف سے برسنے لگا۔ پردے کے پیچھے سے مونگ کی خفیف سی بارش ہوئی ،جس کو پروہت جی نے سہواً راستے میں آ کر روک لیا اور ذرا پیچھے کو ہٹتے ہوئے بولے
’’بھارت سُپتری —اپنی پرجا کے لیے جان تک نچھاور کر دینے والی مہالکشمی—نمسکار کرتا ہوں۔ آگے آئیے اور ہاتھوں میں سیندور لیجیے‘‘۔
حُسن اور حیا کا ایک مرمریں بُت پردے کے پیچھے سے نکلا۔ دو بڑ ی بڑی، مست، شرابی نیم وا آنکھوں نے پروہت جی کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ گلاب کا غنچہ چٹکا اور مہارانی جی نے کچھ کہا —آہستگی سے، یقین سے اور بھروسے سے— مگر پروہت جی نے کچھ نہ سمجھا۔ ایک لمحے بعد مہارانی جی نے آنکھیں نیچی کر لیں۔
مادّیت کی اِس زبردست قوّت سے اُنھوں نے ابھی زور نہ آزمایا تھا کہ مہارانی جی، پروہت جی کے قریب تر آ گئیں۔ جھانجروں کا راگ ایک دفعہ پھر چھڑ گیا۔
راج پروہت نے دل میں یہی اندازہ لگایا—کہ رمتا ایک عورت ہے۔ گلابی پانووں والی، جس کے حسین پانووں سے جھانجروں کا راگ بادل کی مانند آسمان کی طرف اُٹھ رہا ہے۔ اُس کی دو آنکھیں——شرابی ، مست، نیم وا … جن سے ہر طرف پریم کی پھوار پڑ رہی ہو۔
یہ اندازہ غلط تھا۔ راج پروہت کے خیال میں بھی نہ تھا کہ وہ دیوی تھی اور وہ کسی ایک فرد کی خاطر اپنی جان سے بھی گزر جانا جانتی تھی۔ وہ محض ایک عورت نہ تھی۔
مہارانی نے عقیدت کے طور پر پروہت جی کے قدموں میں پڑے ہوئے سیندور کا ٹیکا ماتھے پر لگایا اور پھول بیل دیو کے بدن پر گرائے۔ ایک دفعہ پھر چاروں طرف سے مونگ برسنے لگا۔ لوگوں نے کہا۔ ’’ماتا رمتا کی جے‘‘۔
یہ سچ تھا کہ وہ ایک نہایت خوب صورت نوجوان عورت ہونے کے علاوہ —ماتا…بھی تھی!
مہارانی جی نے اپنی نیم وا آنکھوں کو ایک دفعہ پھر اوپر اُٹھایا—اُن میں سے دو آنسو— ڈھلی ہوئی عقیدت، پگھلائے ہوئے پریم کے دو قطرے نیچے آگرے۔
چندیر نے نہایت آہستہ سے گایا:
’’وہ خاموشی کا سماں—جس پر تکلّم ہزار جان سے فدا ہو!
وہ آنکھیں، جن میں پریم کے پیازی آنسو، گلاب کے رنگ کو شرمائیں!
وہ حیا، جو سو ناز و ادا کو پالے—!
وہ موسیقی، جو ویرانۂ دل میں کھو جائے
سب مل کر، ہاں سب مل کر، مونگے کا دن مناتے ہیں…‘‘
ایک دفعہ پھر ایک جلن کے ساتھ چندیر نے اپنی انگلیوں کو ستار سے علاحدہ کیا۔ پربھو راج پروہت نے اپنے جھکے ہوئے سر کو اُٹھایا—ذرا دائیں طرف منھ پھیر کر پروہت جی نے پجاری جی کو سنکھ بجانے کا اشارہ کیا—سنکھ پورنے کے بعد سب رخصت ہوئے۔
صبح کے وقت پربھو راج پروہت شاہی باغ میں گھوم رہے تھے——اُن کے چہرے سے افسردگی ٹپک رہی تھی۔ اُن کے چہرے کی افسردگی کو دیکھ فضا میں بھی افسردگی پیدا ہو گئی تھی۔ ہمیشہ شرابِ مسرّت میں مدہوش چہرے نے اپنے خط و خال کو ایک شاہانہ رعب داب کی صورت دینی مناسب سمجھی۔ اُنھوں نے اپنے جسم کے تمام عناصر کو ایک عمیق نظر سے دیکھا اور اُن کے دماغ نے فیصلہ کیا کہ وہ خوب صورت ہیں اور اُن کے اعضا سانچے میں ڈھلے ہیں۔
مادّیت اور روحانیت کی کشمکش میں وہ گھبرا گئے۔ خلافِ عادت افسردگی کو جھنجھوڑ کر دور کر دینے کی کوشش میں اُنھوں نے اپنے دل سے کہا:
’’آج باغ کی کلی کلی کیوں خاموش ہو گئی ہے۔ غنچے صبح کی راج کماری کے استقبال کے لیے خندہ پیشانی سے پیش کیوں نہیں آ رہے ۔ پانی کی اُڑتی ہوئی پھوار میں دھنک پیدا کیوں نہیں ہوئی۔ کیا پپیہے کو پی مل گیا ہے کہ وہ ’’پی کہاں‘‘ کی رٹ نہیں لگاتا؟‘‘
چندیر نے آہستہ اور سلجھے ہوئے الفاظ میں پوچھا:
’’پربھو —— آپ خاموش کیوں ہیں؟‘‘
’’کیوں کہ سب سرشٹی خاموش ہے‘‘۔
’’سرشٹی آپ کی خاموشی کی وجہ سے خاموش ہے۔ ورنہ پھول بھی مسکرا رہے ہیں اور دھنک…‘‘
’’نہیں چندیر بھیّا، ایسا نہیں ہے‘‘۔
’’نہیں پربھو۔ اِس نظر سے دیکھیے—کہ آپ کا پیا کہاں بستا ہے، جہاں وہ بسے گا، وہاں… وہ جگہ …‘‘
راج پروہت جی نے بات کاٹ دی اور گیان کے اِس اشارے کو سمجھتے ہوئے بولے
’’ہاں سچ ہے—چندیر ! میری خاموشی کی وجہ اور ہے—!‘‘
’’کیا ہے پھر؟ چندیر نے پھولوں کی تھالی سنبھالتے ہوئے کہا۔
راج پروہت نے کچھ تامّل کے بعد کہا:
’’چندیر—تم یہ کسی کو بتاؤ گے نہیں نا—وعدہ کرو—‘‘
’’وعدہ کیا— پِتا!میں کسی کو نہیں بتاؤں گا—اگر آپ کی یہی اچھّا ہے‘‘۔
راج پروہت جی نے چاروں طرف دیکھا اور جس طرح ہوا کے زور سے چلنے سے چھوٹے چھوٹے پودے لہراتے ہیں اور ایک دوسرے کے کان میں سرگوشیاں کرتے ہیں، اُسی طرح لرزتے ہوئے اُنھوں نے چندیر سے کہہ دیا
’’چندیر —میرا تپ ادھورا رہ گیا۔‘‘
چندیر جی دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔ جس طرح گاتے ہوئے اُس کا قلب یک سوئی اختیار کرجاتا تھا ،اُسی طرح کی یک سوئی سے آنکھوں کو پروہت جی کے چہرے پر گاڑتے ہوئے چندیر نے پوچھا:
’’ادھورا— تپ ادھورا—وہ کیسے؟‘‘
پروہت جی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا:
’’وہ تخیل—وہ پوجنا جس نے مجھ کو —جسے اپنی شانتی پر ناز تھا، اس طرح اَشانت کر دیا، جس طرح بادِ خزاں سوکھے ہوئے پتّوں کو دور تک بکھیرنے کے لیے لے جاتی ہے… اور پھر بتاؤ—چندیر بھیّا! میں کیسے بتاؤں؟‘‘
فوّارے کے پیچھے سے پجاری جی آ نکلے—اور کہنے لگے ’’پربھو چلیے مندر میں—لوگ اکٹّھے ہو رہے ہیں۔ سب آپ کے درشنوں کو بے تاب ہیں—‘‘
راج پروہت جی آہستہ سے مندر کی طرف چلنے لگے۔ پھولوں کی تھالی کے ساتھ چندیر بھی پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ چندیر کو افسوس ہوا کہ راج پروہت جی افسردہ خاطر ہیں۔ اس سے زیادہ وہ اُس بات کو جاننے کے لیے بے چین تھا کہ راج پروہت جی کا تپ کیسے ادھورا رہ گیا ہے۔ کندن کی طرح دمکنے والا چہرہ کیا اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اُن کا تپ مکمل ہے۔ باقی آدمیوں سے ذرا پیچھے ہٹتے ہوئے، راج پروہت جی نے چندیر سے کہا:
’’کاش ! دنیا کو چھوڑنے سے پہلے میں دنیا سے سیر ہو لیتا ،تاکہ اِچھّا کبھی پیدا ہی نہ ہوتی‘‘۔
’’کیسی اِچھّا؟‘‘چندیر نے آہستگی سے پوچھا۔
پروہت جی، چندیر کی بات کا جواب نہ دیتے ہوئے بولے ’’یہ تو تم جانتے ہو چندیری—مہارانی رمتا— ہر ایک فرد کی خاطر اپنی جان تک سے بھی گزر جانا جانتی ہیں‘‘۔
’’جی ہاں—اِس میں ذرا بھی شک نہیں‘‘۔
’’—اور کسی کو بھی اپنے دروازے سے خالی نہیں لوٹاتیں‘‘۔
’’نہیں—بالکل نہیں—وہ ہر ایک کی منو کامنا پوری کرتی ہیں—‘‘
پروہت جی چپ ہو گئے۔ انھوں نے اپنی رفتار ذرا دھیمی کر دی۔ پجاری جی بہت آگے نکل چکے تھے۔ نہایت چپکے سے پروہت جی نے چندیر کے کان میں کہا— ’’آہ چندیر مونگے کے دن کو رمتا کی دو بڑی بڑی آنکھوں نے مجھے موہت کر لیا ہے۔ میں اُس کے دروازے پر پریم کی بھینٹ…‘‘
چندیر کے ہاتھ سے تھالی گِر پڑی۔ پھول بکھر گئے۔ پجاری اور اُس کے ساتھی بھاگے بھاگے آئے اور پھول زمین پر سے اُٹھانے لگے۔ کیوں کہ وہ عقیدت کے پھول مہارانی نے اپنے ہاتھ سے پروس کر بھیجے تھے— مہارانی نے—جو اُن کی ماتا بھی تھی—!
پربھو راج پروہت کے دو آنسو زمین پر گرے۔ جن پر کسی کی نظر نہ پڑی۔
ویسی ہی چاندنی رات تھی۔ پکھیرو درختوں پر اپنے گھونسلوں میں اپنے پروں کے نیچے اپنے بچّوں کو لیے سو رہے تھے۔ بہار کی ہوا آہستہ آہستہ چل کر آم کی خوشبو ، کوئل کے دماغ میں پہنچا رہی تھی اور وہ اپنی نیند سے بیدار ہو کر کبھی کبھار کو‘ کو‘ کی ایک آواز لگا کر پھر سو جاتی
چندیر جی، مہارانی جی کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے ۔ رمتا کو معلوم نہ تھا۔ اُس نے مُڑ کر دیکھا اور متحیّر ہو کر کہا:
’’چندیر! — تم‘‘۔
’’ہاں—ماتا جی‘‘۔
’’آج کی چاندنی رات، پرسوں کی چاندنی رات سے بھی زیادہ خوب صورت ہے— آج قدرت گا رہی ہے‘‘۔
’’ہاں—مہارانی جی‘‘۔
’’سدا بہاری کوئل—— تم نہ گاؤ گے کیا—— تمھاری سِتار کہاں ہے۔ دیکھو کوئل تمھیں اُکسا رہی ہے‘‘۔
’’ماتا، میں گانے نہیں آیا— میں گناہ کرنے آیا ہوں‘‘۔
رانی رمتا ایک قدم پیچھے ہٹ گئیں اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چندیر کی طرف دیکھنے لگیں۔
’’حیران کیوں ہو گئی ہو ماتا— مجھے راج پروہت جی نے بھیجا ہے—سندیسا دے کر‘‘۔
’’راج پروہت جی نے— سندیسا دے کر؟‘‘
’’جی ہاں‘‘۔
’’کیا سندیسا ہے؟‘‘
’’وہ کہتے تھے۔ مہارانی۔ تم کسی کے بھلے کی خاطر اپنی جان تک بھی قربان کرنا جانتی ہو‘‘۔
’’مجھ میں یہ طاقت کہاں——‘‘
’’پھر بھی—‘‘
’’اچھا تو پھر ‘‘۔
’’پھر ماتا— اُنھوں نے کہا تھا کہ مونگے کے دن تمھاری دو بڑی بڑی آنکھوں نے مجھے موہت کر لیا ہے —‘‘ اور چندیر کے آنسو زمین پر ٹپکنے لگے۔ مہارانی نے کچھ افسردہ اور کچھ مسکراتے ہوئے کہا:
’’چندیری بھائی —اس میں تمھارا گناہ کیا ہے‘‘۔
’’یہی قصور ہے نا ماتا ——کہ اپنے بچن کے بس ہو کر، اپنی ماتا کو ایک ایسا سندیسا دے رہا ہوں… اپرادھی ہوں‘‘۔
’’چندیری—گھبراؤ نہیں— ایشور نے پروہت جی کو آزمائش میں ڈالا ہے۔ اگر میں اُن کے پریم کا جواب پریم میں نہ دے سکی، تو اُن کا تپ نا مکمل رہ جائے گا۔ وہ سب منزلیں طے کر چکے ہیں۔ صرف ایک ہی سبق کی ضرورت ہے— میں اُن کے بھلے کے لیے سب کچھ کروں گی—!‘‘
’’ماتا —آپ کا پتی برت دھرم نشٹ ہو جائے گا‘‘۔
’’میں ہندی اِستر ی ہوں‘‘۔
چندیر کے آنسو واپس آنکھوں میں گم ہو گئے۔ کسی اُمید اور آس میں گھِر چکنے کے بعد جوش کو دباتے ہوئے چندیر نے کہا:
’’ماتا —تیری سدا ہی جے!‘‘
یہ اگلی شب کا ذکر ہے۔ راج پروہت مسہری پر لیٹے تھے۔ چاند کی چاندنی دریچے سے گزر کر راج پروہت جی کی مسہری پر پڑ رہی تھی۔ زرد رنگ کی جھالر سنہری دکھائی دیتی تھی — اور معلوم ہوتا تھا جیسے پربھو راج پروہت— گزشتہ واقعات پر غور کر رہے ہوں۔
راج پروہت نرم نرم گدگدی مسہر ی پر نہایت اضطراب کی حالت میں کروٹ پر کروٹ لے رہے تھے۔ مسہری کے پاس پڑی کھڑانووں کے نزدیک بیٹھے ہوئے چندیر نے کہا:
’’تو پربھو—آپ کا تپ مکمل ہو جائے گا۔‘‘
’’کیا سچ مچ؟‘‘
——اور راج پروہت مسہری پر سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ زیادہ توجہ دیتے ہوئے اُنھوں نے کہا:
’’اور کچھ بتاؤ—میرے چندیر— میرے جلے دل پر چندن کا پانی چھڑک دو —‘‘
’’ہاں تو — اُنھوں نے کہا تھا — اپنے منھ سے کہ میں پریم کا جواب پریم میں دوں گی— اور کہا تھا کہ اُن کا تپ ادھورا نہیں رہنا چاہیے‘‘۔
’’یعنی — یعنی — وہ بھی مجھ سے پریم کرتی ہیں …مجھے بہشت کی رسائی سے زیادہ سُکھ ملا۔ چندیر — آخر !‘‘
چندیر کے ماتھے پر شکن پڑ گئے۔ گھبراہٹ سے اُس نے کہا ’’اور میں نے دیکھا کہ اُن کی ساڑی تربتر ہو رہی تھی۔ جیسے کسی نے گھڑوں پانی اُنڈیل دیا ہو‘‘۔
’’آنسوؤں سے — میرے لیے وہ …‘‘
’’ … ‘‘
’’کیا یہ سچ ہے یا ایک خواب ہے؟‘‘ اور پربھو راج پروہت دریچے میں جا کھڑے ہوئے۔ چاند کی چاندنی نے ہر ایک چیز کو اپنی روپہری [روپہلی] اور آرام دینے والی گود میں لے لیا تھا اور ہوا پنکھا کر کے خاموشی کی لوریاں دے رہی تھی۔
’’— اور پربھو— انھوں نے بھی پریم سندیسا دیا — وہ کہتی تھیں کہ’’ یہ ایک ناچیز شے ہے جو آپ کے متبرک قدموں کی بھینٹ کی جا رہی ہے۔‘‘ اور چندیر نے تھال راج پروہت جی کے آگے کر دی — تھالی پر ایک ڈھکنا تھا جو شاید کسی رکابی کو ڈھک رہا تھا اور اُس کے گرد پھول بکھر رہے تھے اور دھو‘پ ، مدّھم مدّھم جل رہا تھا اور اپنی خوش بو‘ کو چاروں طرف بکھیر رہا تھا۔
’’تم نے دیکھا — یہ کیا ہے چندیری —؟‘‘ راج پروہت نے حریصانہ انداز سے تھالی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں پربھو— مجھے ایسا کرنے سے منع کیا گیا تھا۔‘‘
اور جس طرح ایک چاندنی رات کو چندیر نے ستار پر سے ایک جلن کے ساتھ اپنی انگلیوں کو اُٹھا لیا تھا اور مہارانی کے بے چین آنکھوں [نے] دو قیمتی موتی — آنسو، تحفے میں چندیر کو دیے تھے، اُسی طرح ایک جلن اور تڑپ کے ساتھ راج پروہت جی نے دریچے کو چھوڑا، تاکہ کوئی موتی— کوئی نایاب تحفہ مہارانی رمتا کی طرف سے بھیجا ہوا پاکر اُس کا پوجن کیا کریں
اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے راج پروہت جی نے ڈھکنا اُٹھایا اور تھال کو ایک قندیل کے نیچے لے گئے— ایک چیخ سنائی دی۔ چندیر کے ہاتھ سے پھر ایک دفعہ تھال گِر پڑا۔ راج پروہت نے زور سے کہا:
’’آہ! آج برسوں کی تپسیّا مکمّل ہوئی ہے۔‘‘ اور کپڑے پھاڑ کر باہر نکل گئے۔ چندیری— ماتا رمتا کے پجاری —بے ہوش ہو گئے۔
چمکتے ہوئے بلّوریں فرش پر بہت سے پھول بکھرے ہوئے تھے، جن پر قندیل کی روشنی اور چاند کی چاندنی مل کر پڑ رہی تھیں اور اُن پھولوں کے درمیان پڑی تھیں — دو موٹی موٹی — بے رونق آنکھیں!!!

(سال نامہ ’’ادبی دُنیا‘‘ لاہور۔ دسمبر 1937 )

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)