ت ۔ کی کہاوتیں
( ۱۴ ) تندرستی ہزار نعمت ہے :
کہاوت کے معنی اور محل استعمال ظاہر ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر تندرستی نہ ہو تو دنیا کی ہر شے بے معنی اور بے مزا ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ ایک شعر کا دوسرا مصرع ہے ؎
تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ تندرستی ہزار نعمت ہے
( ۱۵) تو بھی رانی میں بھی رانی، کون بھرے پنگھٹ کا پانی :
جب کسی کام کی پیروی میں دو آدمیوں کے درمیان اختلاف ہو کہ کون اس کو کرے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ اگر دونوں ہی اس کام کو اپنی حیثیت سے کم جانیں تو وہ کام ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی بات کو کہاوت عورتوں کی زبان میں کہہ رہی ہے کہ جب دونوں عورتیں رانی ہیں تو بھلا پنگھٹ پر پانی بھرنے کون جائے گا؟
( ۱۶ ) تو ڈال ڈال، میں پات پات :
یعنی میں تجھ سے کم نہیں ہوں،اگر تیرا نام ہر شاخ پر لکھا ہے تو میرا نام ہر پتّے پر لکھا ہوا ہے۔
(۱۷) تَوے کی بوند ہو گیا :
جلتے توے پر پانی کی بوند ڈالئے تو وہ فوراً بھاپ بن کر اُڑ جاتی ہے گویا ایک بوند توے کو ٹھنڈا نہیں کر سکتی۔ اسی رعایت سے کہاوت ایسی چیز کے لئے بولی جاتی ہے جو مقدار میں ضرورت سے بہت کم ہو۔
( ۱۸ ) توے کی تیری،ہاتھ کی میری :
یعنی جو روٹی ابھی توے پر ہے وہ تیری ہے لیکن جو تیار ہو کر ہاتھ میں آ چکی وہ میری ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ زیادہ فائدہ میرا اور تھوڑا تیرا۔ کہاوت خود غرض شخص کا حال بیان کر رہی ہے۔ اسی سے محل استعمال قیاس کیا جا سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment