کچهہ
پهول جل رہے بہاروں کی اگ میں
آشفتگی
سے چور ہیں زلفوں کی بدلیاں
ساقی
شراب ڈال چناروں کی آگ میں
پلکوں
میں بهیگی بهیگی ہیں کجلے کی دهاریاں
شبنم
مہک رہی ہے شراروں کی آگ میں
گر
مے نہیں تو پیار کے دو بول ہی سہی
کچھ
تو کمی هو بادہ گساروں کی آگ میں
اللہ
رے یقین محبت کی داستان
دامن
سلگ رہا ہے ستاروں کی آگ میں
کہتی
ہے ناخدا سے یہ سوچوں کی شورشیں
تیرے
بهی مشورے تهے کناروں کی آگ میں
ساغر
رہیں گے رونق بازار آرزو
آشعار
جو کہے ہیں نگاروں کی آگ میں
No comments:
Post a Comment