ب ۔ کی کہاوتیں
( ۸) بات لاکھ کی، کرنی خاک کی :
یعنی بات تو بہت بڑھا چڑھا کر کی لیکن کر کے کچھ بھی نہ دکھا یا۔ اسی مضمون کا شعر دیکھئے:
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
(۹) بارہ برس دلّی میں رہے اور بھاڑ جھونکا :
اگر کوئی شخص عرصہ تک اَچھے اِمکانات سے دوچار رَہے لیکن اُن سے کچھ حاصل نہ کرے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ دلّی کا ذکر وہاں میسر معاشی امکانات اور اس کی تہذیبی مرکزیت کی مناسبت سے کیا گیا ہے۔
( ۱۰ ) بارہ برس بعد گھورے کے بھی دن پھر جاتے ہیں :
گھورا یعنی کُوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ۔ وقت کے ساتھ اس مقام پر بھی کوئی کام کی چیز بن جاتی ہے۔ کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کب کسی بدقسمت آدمی کی قسمت بدل جائے گی۔کہاوت میں یہ نصیحت بھی مخفی ہے کہ کسی کو تحقیر سے نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ کل اس کی حیثیت بدل سکتی ہے۔
( ۱۱ ) باڑھ کاٹے، نام تلوار کا :
باڑھ یعنی تلوار کی دھار۔ تلوا رکی کاٹ اُس کی باڑھ ہی کرتی ہے لیکن نام تلوار کا ہوتا ہے۔ کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ کام تو کوئی اور کر رہا ہے لیکن نام کسی اور کا ہو رہا ہے۔ محل استعمال معنی سے ظاہر ہے۔
( ۱۲) باڑھ ہی جب کھیت کھائے تو رکھوالی کون کرے :
باڑھ یعنی وہ خاردار جھاڑی جو کھیت کے اِرد گرد اُس کو جانوروں سے محفوظ رکھنے کے لئے لگائی جاتی ہے۔ جب مال کا چوکیدار ہی چوری کرنے لگے تو پھر کس کا بھروسا کیا جائے؟یہ کہاوت تب بولی جاتی ہے جب کوئی ایسا شخص دھوکا دے یا چوری کرے جس کو معتبر سمجھا گیا تھا۔
No comments:
Post a Comment