الف ۔ کی کہاوتیں
(۹۰) اندھا
کیا چاہے، دو آنکھیں :
ہر اندھے آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش اس کے
بھی آنکھیں ہوتیں ۔ اسی مناسبت سے کسی شخص کی من مانی مراد پوری ہو
جائے تو کہتے ہیں کہ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں ، یعنی سب کچھ تو مل گیا، اب اَور کیا چاہئے۔
( 91) اندھے کے کندھے لنگڑا چڑھا، بن گیا دونوں کا کام
:
مل جل کر عقل مندی سے کیا جائے تو کم اہل آدمیوں کے لئے بھی مشکل کام آسان ہو جاتا ہے۔ اس کو یہ کہاوت یوں واضح کرتی ہے کہ ایک گاؤں میں آگ
لگ گئی اور لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ دو آدمی پیچھے رہ گئے۔ان میں ایک لنگڑا تھا جو بھاگ نہیں سکتا تھا اور دوسرا اندھا جس کو دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ایسی مصیبت کے وقت لنگڑا آدمی اندھے
کے کندھے پر بیٹھ گیا اور اُسے راستہ بتا کر خطرہ سے نکال لایا اور اس طرح
دونوں کی جان بچ گئی۔
(۹۲) انسان
کی قدر مرنے کے بعد معلوم ہوتی ہے :
کہاوت کا مطلب اور
محل استعمال ظاہر ہیں۔ کسی شاعر نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
جیتے جی قدر بشر کی
نہیں ہوتی پیارے یاد آوے گی تجھے میری وفا میرے بعد
(۹۳) اندھا
ہاتھی اپنی فوج کو ہی مارے:
جس طرح اندھے جنگی ہاتھی کو دوست دشمن کی تمیز
نہیں ہوتی ہے اس طرح
نادان آدمی سے اپنوں کو ہی نقصان
پہنچتا ہے کیونکہ اس کو بھی تمیز کم ہوتی ہے۔
(۹۴) اندھا
امام، ٹوٹی مسیت :
مسیت عوامی زبان میں مسجد کو کہتے ہیں۔ آدمی کی جیسی حیثیت ہوتی ہے
ویسا ہی مقام اس کو ملتا ہے جیسے اندھے امام کو ٹوٹی مسجد دے دی جاتی ہے کیونکہ اس
کو مسجد کی حالت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے۔
(۹۵) اندھے
کے ہاتھ بٹیر آنا :
بٹیر فاختہ کے برابر ایک پرندہ ہے جس کو پکڑنا
کافی مشکل ہوتا ہے۔ اگر کسی نا اہل شخص کو اتفاقاً کوئی غیر متوقع فائدہ پہنچ جائے
تو کہتے ہیں کہ اندھے کے ہاتھ بٹیر آ گئی۔
No comments:
Post a Comment