مثبت اور منفی
راجندر سنگھ بیدی
کنواں کھُد گیا تو شعیب صاحب کے عملے کے سب اردلی اور مزدور اکٹھّے ہو گئے
اور سب نے مل کر ایک لٹکا اَلاپنا شروع کر دیا — ’’سر کاٹ کنویں پہ ڈال دیا…‘‘
ابھی تک ان لوگوں کے دماغ پر کُنواں سوار تھا۔ ریت اور اینٹ کے ملبے کے نیچے
زندہ دفن ہو جانے کے ایک غیرشعوری خیال نے ان کی طبیعتوں پر ایک گراں بوجھ، ایک
اوس سی ڈال دی تھی، اور یہ کیفیت اس روہتکی لٹکے کے سُر سے بہ خوبی ظاہر تھی۔ گیت
میں آوازیں اچھّی تھیں، تال درست تھی۔ سبھی کچھ تھا لیکن مشترکہ گانے کا خلوص اور
اُس کی مخصوص گرم جوشی نہ تھی، اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے پاتال سے آوازیں آ رہی
ہیں۔ لیکن جوں ہی شعیب کا بڑا اردلی شمس، دوسرے بند پر پہنچا تو سب کے سر ہلنے لگے
اور آواز بلند ہوئی—
’’تیرا ماریا نہیں جینے کا، لوٹ لیا لٹکن سے ہو…‘‘
آئے ہائے، لوٹ لیا لٹکن سے… اور سب کے سب سینہ پیٹتے ہوئے شور مچانے لگے۔
گویا ایک بار پھر تصدیق ہوئی کہ موت اور عورت اپنے اپنے منفی اور مثبت طریقے پر ایک
ہی سے ہوش رُبا ہوتے ہیں۔ شعیب اپنے بنگلے میں، ساٹن کے ایک بدیسی دِوان پر بیٹھے
ہوئے، شمس، راماسیٹی اور ان کے ساتھیوں کو چٹکی بجاتے، ناچتے گاتے دیکھ رہے تھے
اور اُن کا جی چاہتا تھا کہ وہ خود بھی دوڑ کر ان میں شامل ہو جائیں اور اونچی
آواز سے گائیں— ’’لوٹ لیا لٹکن سے، ہائے…‘‘
شعیب نے اپنے کمرے کے قالین پر ناچنا شروع کر دیا۔ لیکن ایک دو منٹ کی کوشش
کے باوجود اُن کے دل کو کسی طرح کا اطمینان، کسی قسم کی خوشی نہ ہوئی۔ اُنھوں نے
پھر کھڑکی میں سے جھانکا تو لٹکے کے ساتھ ناچ کے لیے انھیں وہی، ریت کی قدرتی فلالین
سی، تیسرے چاند کی مٹ میلی روشنی میں بِچھی ہوئی زیادہ اچھی دکھائی دی۔ وہ یہ بھول
گئے کہ وہ ہندستان کی سب سے بڑی سروس کے ایک رکن ہیں اور دہلی میں ایک بڑے عہدے پر
فائز… جس طرح سوت پر سے کلابتون کے چمکتے ہوئے تاروں کے اُترتے ہی سوت سیدھا ہو
جاتا ہے، اس طرح لٹکے کے دو بول سن کر، شعیب میں کوئی پندار، کوئی چھل بل نہ رہا
،لیکن جب اُنھوں نے آگے بڑھنے کے لیے قدم بڑھایا، تو گویا آپ سے آپ اُن کے قدم زمین
میں گڑ گئے—
اس طبقاتی کش مکش کو شعیب ہمیشہ شدّت سے محسوس کیا کرتے تھے۔ نوکروں، چپراسیوں،
قلیوں اور اِس قسم کے لوگوں کے ساتھ براہِ راست تعلّق کو وہ اپنا نجی معاملہ
سمجھتے۔ لیکن اُن کی یہ پُر آمدنی نوکری اُنھیں ہمیشہ ایک اچھا منتظم، ایک بہتر حاکم
بننا پہلے، اور انسان ہونا بعد میں سکھاتی تھی۔دوسرے بند کو سُن کر جب وہ آگے بڑھے
تو اُن کی آنکھوں کے سامنے حکومت کے نائب معتمد کی چِٹھی آ گئی، جو انھیں چند ہی
دن ہوئے موصول ہوئی تھی——اور جس میں لکھا تھا—— ’’آپ آستین چڑھائے، تکیہ نجیب شاہ
میں، جہاں کھُلی بیئر ملتی ہے، ایک ایسی حالت میں دیکھے گئے جس سے حکومت (جس کے آپ
ایک رکن ہیں) کے وقار کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے…۔‘‘
’’وقار کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے‘‘——شعیب نے لفظوں کو بگاڑتے
ہوئے کہا اور اپنی نظریں پھر اردلیوں اور مزدوروں کی طرف لگا دیں۔ شعیب کو راما سیٹی
اور شمس کے ساتھ مل کر، چھنک چھنک چھنکوارے، یار میوہ کی قدر گھٹا دی، کالی سی اس
جامن نے، گا کر بڑا مزا آتا تھا۔ اس آخری گیت میں کتنا ترنّم تھا، کتنی سادگی تھی
اور کتنے معانی تھے—یہ کالی سی جامن جو سامنے آئی تو سب میوے کی قدر کم ہو گئی اور
یہ مختصر سا مضمون اب تک بدصورتی پر لکھے گئے تمام مضامین پر حاوی تھا۔ اور پھر اس
گیت کے دوسرے بول، پس منظر میں پچھلی بڑی جنگ، ایک مشاہدہ لیے ہوئے تھے۔ روہتک کے
ضلع میں کوئی دیپ چند براہمن رہتا تھا۔ نہایت اچھا گاتا ، سوانگ بھرتا اور نقلوں
سے لوگوں کو خوش کر کے دارو کے لیے پیسے اینٹھتا، اسے دیکھ کر عوام کی طبّاعی نے
شعر کی تخلیق کر لی تھی——
میوے کی قدر گھٹا دی، کالی سی اُس جامن نے
بھجنا کی قدر گھٹا دی، دیپ چند باہمن نے
یعنی بھجنوں کی وقعت اس لیے کم ہو گئی کہ دیپ چند براہمن نے خدا کے نام کو
اپنے نفس پر ارزاں کر دیا تھا اور اِس سیدھے سادے شعر میں کتنی گویائی، کتنی تاریخ
تھی۔ دونوں مصرعوں کا آپس میں کوئی تعلق نہ تھا، لیکن اس کے معنی کس سے چھُپے رہتے
تھے۔ کلب کے JAZZ اِس سیدھے سادے نغمے سے کتنے مختلف تھے اور شعیب کو اُن لوگوں
پر ہنسی آتی جو اِن مغربی گیتوں کو نہ سمجھتے ہوئے بھی اِن پر بے تحاشا داد دیتے
تھے۔ جو آرٹ گیلریوں میں گھوم کرونسنسٹ وین گاف ، بنگال اسکول آف آرٹ اور ان سے
متعلق چند اُلٹی سیدھی ہانک کر اپنی ہیچ مدانی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے، جو
کرناٹک کی موسیقی کا پنجاب کے ڈھولک کے گیتوں اور کتھا کلی کا فاکس ٹراٹ کے ساتھ
تذکرہ کرتے… لوگوں کے ساتھ براہِ راست تعلق کے سلسلے میں شعیب کے سب فلسفے کا
انحصار اس کالی جامن والے شعر پر تھا۔ یعنی وہ اگر ایسے آزاد منش نہ ہوتے، تو زندگی
بھر ایسے شعر سے محروم رہ جاتے—
شعیب کی اپنی زندگی پر تنقید بستر کی چائے سے شروع ہوتی تھی۔ ان کی انانیت
پسند بیوی نے — ایک بڑی رقم خرچ کر کے ایک نہایت خوب صورت سیٹ خریدا تھا۔ اس کی
لمبوتری سی چینک میں چائے، مخمل کی ایک خوب صورت ٹی کوزی میں ڈھانپتی ہوئی ملتی تھی
اور شمس کمرِ زرّیں باندھے، جھک جھک کر آداب بجا لاتا ہوا، اُسے تپائی پر رکھ کر،
ایک نہایت پُر ملائمت لہجے میں ’’سرکار سرکار… ‘‘ کہتے ہوئے چلا جاتا۔ بڑے صاحب
ڈبل بیڈ کے ایک حصّے میں سے سر اُٹھاتے ہوئے دو چار جمائیاں لیتے۔ کمرے کے ارد گرد
کی عمر خیامی کیفیت دیکھ کر جی چاہتا کہ پئیں اور [سوجائیں اور ابد تک پیتے پلاتے
اور سوتے رہیں؟] اس کے بعد دوسرا نوکر اردل کے لیے آتا تو ہوا خوری ہوتی۔ کبھی کبھی
گھوڑے پر سواری ہو جاتی۔ سیر سے واپسی پر بچّے کانونٹ جانے کے لیے تیار ملتے۔ اُن
کی تعلیم شروع سے انگریزی ہوتی اور اُنھیں اپنی تہذیب ، اپنے آداب و اخلاق سے
بالکل بے بہرہ رکھا جاتا۔ وہ گھر کے اندر باہر، انگریزی لوریاں، انگریزی گیت
دُہراتے رہتے۔ یہ سب کچھ انھیں کانونٹ میں رٹایا جاتا تھا۔ پھر بیگم چاہتی کہ وہ
انھیں ممّی اور ابّا کو ڈیڈی کہہ کر پکاریں—
کچھ دیر بعد بیرا طشتری میں ملاقاتی کارڈ رکھ کر لاتا۔ کبھی ملنے کی فرصت
ہوتی اور کبھی فِلُو یعنی زکام کا بہانہ ہو جاتا۔ جب ملاقاتی کو کمرے میں بُلایا
جاتا تو وہ کسی مبہم خوف سے کانپ رہا ہوتا۔ وہ مشکل سے بات پوری کرپاتا۔ شعیب اس
کے چہرے کے گرگٹ اور اُس کے طرز تخاطب کو بڑے غور سے دیکھتے اور سر ہلاتے جاتے۔
اگر یہ ملاقات چند معزز شہریوں کی طرف سے ہوتی، تو شعیب جبراً اپنے چہرے پر ایک
مسکراہٹ بھی لے آتے۔ انھیں ہمیشہ یقین ہوتا کہ اگلی صبح اخباروں میں ضرور لکھا ہو
گا ——شعیب صاحب ڈیپوٹیشن کے سب آدمیوں کے ساتھ نہایت خندہ پیشانی سے ملے۔ جب اُن میں
سے کچھ ، بات کرتے ہوئے ہکلاتے تو شعیب سوچتے کیا یہ اتنا بھی نہیں جانتے، کہ سب
انسان بنیادی طور پر ایک سے ہوتے ہیں۔ عورت کے بارے میں جتنے وہ کمزور ہیں، اس سے
زیادہ ہم ہیں۔ کبھی کبھی ہمارا بھی جی چاہتا ہے کہ پاسبانِ عقل، دل کو تنہا چھوڑ
دے اور ہم رذیل بازاریوں کی طرح فحش باتیں کریں۔ اولاد کو گلے لگانے سے مجھے اتنی
ہی فرحت حاصل ہوتی ہے جتنی کسی عام انسان کو۔ ننھّی زیبو کے مرنے پر میں بھی اتنا
ہی رویا تھا، جتنا ہرکھو مالی اپنے بچّے کے تلف ہو جانے پر ——فرق صرف اتنا ہی ہے
کہ اُس نے کھلے بندوں ڈھائیں [دہاڑیں] ماری تھیں، لیکن اِدھر وہی وضع داری دامن گیر
تھی اور میں نے روتے ہوئے اپنے کمرے کے تمام کواڑ مقفّل کر لیے تھے ——پھر لوگ مجھے
کیوں ہوّا سمجھتے ہیں؟ مجھ سے کیوں خائف ہیں؟
اس کے بعد دفتر کی باری آتی۔ کچہری میں آنے والا بڑے سے بڑا وکیل اور معزز
سے معزز شہری، اپنی تقریروں میں القاب و آداب کا خیال رکھتا۔ عموماً خطاب کے شروع
میں جناب اور آخر میں بھی جناب ہوتا۔ کبھی اس لفظ میں جیم کی تکرار بھلے چنگے
انسان کے دماغ کو آسمان پر چڑھا دیتی۔ سارا دن ڈانٹ ڈپٹ ، جنگ کے لیے رئیسوں سے
کورے، دستخط شدہ چیک لینے اور اُن رئیسوں کے لیے ایم، بی، ای، وغیرہ کی سفارشیں
کرنے میں گزر جاتا۔ جب روپئے کی فراہمی ایک لاکھ سے بڑھ جاتی تو ایک دربار کا
انعقاد ہوتا۔ اور گورنر صاحب یا کمشنر صاحب سے اپنی تعریف کروائی جاتی۔
شام کے وقت ٹینس، سینما، یا کلب سے مطلب، یا ٹیل کوٹ اور کاک ٹیل سے واسطہ
ہوتا، اور ایسی عورتوں سے ملاقاتیں ہوتیں، جنھوں نے اپنے چہرے کو غازے سے بھرا
ہوتا۔ مسز شعیب، خود بہت خوب صورت تھیں لیکن
اُن کی نگاہِ التفات حاصل کرنے کے لیے بھی ٹِشو کی ساری یا جوشن کا نذرانہ ہوتا۔
مسز شعیب نے اپنی پیشانی کے اوپر بالوں پر ببری بنا رکھی تھی۔ یعنی اوپر کے بالوں
کو کٹوا کر خوب صورتی کے لیے چھوٹا کر لیا تھا۔ یہ حرکت شعیب کو سخت ناپسند تھی، لیکن
آداب و اخلاق اس کی زباں بندی کیے ہوئے تھے۔ پھر بیگم شعیب چہرے پر افشاں چُنتی تھی
اور یہ کلابتون اس عورت [ کے سو‘ت] پر ہمیشہ موجود رہتا اور سینماہال یا تھیٹر کے
کلوک روم کی روشنی میں اس کا چہرہ اس قدر چمکتا کہ لوگوں کی نظروں سے بچنا مشکل ہو
جاتا۔
یہ تقریباً سارے دن کا پروگرام تھا، جس سے شعیب اُکتا گئے تھے۔ ان کی دوسری
شخصیت ان کے اصل پر ہمیشہ حاوی رہتی اور اس لیے ان کی نسیں تنی رہتیں۔ یہ سب باتیں
تو ہوتیں لیکن ایک بات جو انھیں بالکل راس نہ آتی، وہ دنیائے تکلفّات تھی۔ یعنی
اگر بیگم شعیب چائے کی پیالی ہاتھ میں دیں تو جھک کر اُن کا شکریہ ادا کیا جائے۔
جو وہ ان کے پہننے کے لیے سلیپر سرکائیں، تو بھی اُن کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اور
جب وہ ایک معمولی سا تحفہ بیگم کی نذر کریں، تو وہ اپنی ممنونیت کا اظہار کریں۔ یہ
سب کچھ اس لیے ہوتا تھا کہ کانونٹ میں تعلیم پائی ہوئی بیگم شعیب اِن سب باتوں کو
پسند کرتی تھیں اور ان کے پُرتکلف تعلّقات سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ دونوں کا ایک
دوسرے پر کوئی حق نہیں ہے اور اگر ان میں سے کوئی [دوسرے پر لطف]کرتا ہے تو یہ اُس
کی ذرّہ نوازی ہے—
شعیب یہ سب باتیں سوچ رہے تھے کہ ’’کالی سی اُس جامن نے‘‘ کی آواز ہَوا کے
کندھوں پر تیرتی ہوئی کھڑکی تک آئی۔ شاید شمس، بڑے صاحب کی اِس گیت کے لیے کمزوری
سے واقف تھا۔ شعیب کے دماغ پر پھر ایک دفعہ نائب معتمد کے الفاظ— وقار کو نقصان
پہنچنے کا احتمال ہے—گھوم گئے ،لیکن شعیب نے چھی چھی کہہ کر اور اپنے سر کو ایک
جھٹکا دے کر اس خیال سے نجات حاصل کی۔ انھوں نے اپنی پرانی چپلی کو پہنا۔ زربفت کے
خوابی گون کو اُتارا۔ قمیص کی آستینیں چڑھائیں۔ بالوں میں ہاتھ ڈال کر اُنھیں بے
ترتیب کیا اور لٹکے میں حصّہ لینے کے لیے باہر نکل گئے۔
شمس، راماسیٹی، بانکے اور اُن کے سب ساتھی بڑے اطمینان سے گا رہے تھے۔ شعیب
اُن کے قریب پہنچ کر ٹھٹک گئے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے پہنچنے کا کیا نتیجہ ہو گا۔
بانکے کی لُگائی اگرچہ جامن کی طرح کالی تھی، لیکن اُس کے نقش بہت تیکھے تھے۔ اس
کا جسم گداز تھا—— اس لیے بانکے کو گیت میں سب سے زیادہ رس آ رہا تھا اور وہ ان سب
سے زیادہ شوریدہ سر ہو رہا تھا۔ شمس اور راما سیٹی بھی اس کی کیفیت سے واقف تھے
اور وہ کبھی کبھی اندھیرے میں ہاتھ اُٹھا کر بانکے کی کمر میں ٹھینگا دیتے۔ جب شعیب
قریب پہنچے، تو لٹکا دو آوازوں سے چار ،چار سے ایک اور پھر آناً فاناً بند ہو گیا
اور سب گھبرا کر کھڑے ہو گئے—
شعیب نے تین چار مرتبہ کہا — ’’گاؤ، گاؤ نا— گاتے کیوں نہیں؟‘‘
شمس نے اپنے بڑے سے عمامے کو سنبھالتے اور اندر باہر سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا
— ’’ہی ہی، بڑی سرکار! ہم کیا گائیں گے— کیا ہم بہت شور مچا رہے تھے سرکار؟‘‘
’’نہیں تو‘‘ شعیب بولے اور انھیں ملگجی چاندنی میں شمس، راما سیٹی
اور بانکے کے کانپتے ہوئے جسم دکھائی دینے لگے۔ شعیب نے پھر اُنھیں بیٹھنے اور
لٹکا گانے کے لیے اصرار کیا۔ پھر سب یک زبان ہو کر بولے— — ’’اجی سرکار ہم کیا گائیں
گے؟‘‘ اور پھر ایک خاموشی سی چھا گئی۔ یوں معلوم ہونے لگا، جیسے قبرستان میں گورکن
اور جنازہ بردار کھڑے ہیں۔ شعیب ذرا تحکّمانہ انداز میں بولے— ’’میں کہتا ہوں شمس
، گاؤ—۔‘‘
شمس نے اندھیرے میں راما سیٹی کی طرف دیکھا اور بانکے نے شمس کی کمر میں ٹھینگا
دیتے ہوئے کہا ’’گاؤ، بڑی سرکار کا جو حکم ہے۔‘‘ دراصل شعیب اِس حکم پر بہت شرمندہ
ہوئے۔ گیت حکم کے مطابق نہیں گائے جاتے۔ وہ کسی اندرونی تحریک پر اپنے آپ باہر آ
جاتے ہیں۔ سوتے پھوٹتے ہیں، جاری نہیں کیے جاتے۔ اب جو اِن سب لوگوں نے مل کر گایا
تو پہلے لٹکے اور اِس میں وہی فرق تھا ،جو چشمے کے پانی اور شہر کے ٹیوب ویل سے
نکلنے والے پانی میں ہوتا ہے!
شعیب اُن کے درمیان بیٹھنے کے لیے بڑھے۔ پھر سب نے گیت بند کر دیا اور بولے
—ہے ہے— بڑی سرکار! اس ریت پر بیٹھیں گے؟ یہ نہ ہو گا سرکار! ہم آپ کے گُلام کس
کھاطر ہیں اور شمس کوٹھی کی طرف جھولا کرسی لینے کے لیے دوڑا۔ شعیب چاہتے تھے کہ
وہ اِن لوگوں کے درمیان، ان ہی کی طرح ریت پر آلتی پالتی مار کر بیٹھیں اور گائیں۔
لیکن اب وہ ان لوگوں کو کیسے سمجھائیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کے بے
تحاشا جھپکتی آنکھوں سے دماغ تک پہنچنا ناممکن تھا۔ شعیب چاہتے تو شمس کو ڈانٹ کر
مونڈھا یا جھولا کرسی لانے سے روک دیتے، لیکن وہ قضا و قدر کی اس حسین و جمیل سزا
پر قانع رہے۔ جھولا کرسی کا ریت پر کوئی فائدہ نہ تھا۔ شعیب کی ان لوگوں کے درمیان
بیٹھ کر لٹکا گانے کی خواہش پوری نہ ہوئی۔ ان لوگوں نے شعیب کو ایک امتیازی درجہ
دے کر اپنے حلقۂ انبساط سے باہر کر دیا۔ شعیب کو اتنی رونق میں اپنی تنہائی کا
احساس ہونے لگا۔ سب نے مل کر لٹکے کا مُرغ نکو بانگ ذبح کیا، اور شعیب جلدی سے سلیپر
پہن کر چلے آئے۔
شعیب بہت رات تک نہ سوئے۔ راماسیٹی کے ٹھینگوں سے انھیں پتہ چلا کہ بانکے کی
بہو ’’جامن‘‘ کے ساتھ کوئی دل چسپ حکایت وابستہ ہے۔ اُنھوں نے ایک دفعہ پھر ان
لوگوں کے قریب آنے کی کوشش کی۔ صبح بستر کی چائے کے بعد ہوا خوری ملتوی ہوئی۔
ملاقاتی کارڈ واپس کیے گئے اور بانکے کو بُلایا گیا۔
بانکے ہانپتا کانپتا آیا۔ اُس نے ابرو کے اشارے سے شمس کو پوچھا ’’کیوں میاں
خیریت تو ہے؟‘‘ شمس نے زیریں لب لٹکا کر اور ہاتھ چھوڑ کر اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔
بانکے نے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا— ’’بابا! افسر
کی اگاڑی—‘‘ اور شمس نے بانکے کے ساتھ مل کر فقرہ مکمّل کیا— ’’گھوڑے کی پچھاڑی نہیں
آنا چاہیے—ہاں!‘‘
شعیب نے یہ بات سُنی اور دل میں بانکے کے ساتھ نہایت خوش خلقی سے پیش آنے
کا فیصلہ کیا۔ بانکے نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اپنے بھاری بھرکم جوتے پا انداز
کے قریب اُتار دیے اور آپ بھی اُن جوتوں کے قریب بیٹھ گیا۔ کچھ اِس طرح کہ اُس کے
گھٹنے کلیجے سے لگے ہوئے تھے اور ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ شعیب نے مسکراتے ہوئے کہا—
’’ارے رہنے دو یار بانکے! لے آؤ جوتے اِدھر ہی — آؤ—۔‘‘
بانکے نے حیران ہوتے ہوئے اپنی ڈیڑھ آنکھ سے بڑے صاحب کی طرف دیکھا اور وہیں
[سے]فرشی سلام کرتے ہوئے بولا۔’’نہیں سرکار! ہم لوگوں کی جگہ یہی ہے——آپ کے جوتوں
میں۔‘‘
شعیب نے بانکے کو بازو سے پکڑ کر ایک صوفے میں دھکیل دیا۔ بانکے اِس تمام
واقعے کو نہایت پُراسرار سمجھتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔
پھر شعیب ہی بولے— ’’وہ رات کا لٹکا بہت اچھا رہا، بانکے—‘‘
’’جی ہاں ہاں—بڑی سرکار—کون سا لٹکا؟‘‘
’’وہی۔‘‘
’’لوٹ لیا لٹکن سے…؟‘‘
’’نہیں —وہ کالی سی اُس جامن نے…‘‘
بانکے کے چہرے پر تین چار رنگ آئے اور گئے۔ اُسے شک ہو گیا کہ بڑے صاحب
جامنیا میں دل چسپی لینے لگے ہیں اور نہیں تو جامنیا کے اغوا کا قصّہ پھر سے چھڑنے
والا ہے۔ دونوں صورتوں میں جواب ایک ہی تھا۔ بانکے گڑ گڑاتے ہوئے بولا— ’’سرکار ہم
گریب آدمی ٹھہرے…۔‘‘
شعیب نے بانکے کو ہر طرح کا اطمینان دلایا۔ لیکن وہ بڑے صاحب کا ’’مُدّا‘‘
نہ سمجھ سکا۔ بانکے نے بہت دنیا دیکھی تھی۔ وہ اپنے حلقے میں بڑا لطیفہ گو آدمی
گنا جاتا تھا۔ اور شعیب اس سے آزادی لے کر چند باتیں کرنا چاہتے تھے— اُن کی خواہش
تھی کہ بانکے خود ہی بات شروع کرے اور پھر اُس پر رائے زنی ہو۔ لطیفے ہوں۔ لیکن
کتنی بھی لمبی بات شروع کی جائے، وہ ایک مختصر سے جواب پر ختم ہو جاتی تھی—
اس کے بعد بانکے نے اجازت طلب کی۔ شعیب صاحب نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔
بات چیت کو جاری رکھنے کے لیے کوئی نیا مضمون نہیں تھا۔ شعیب صاحب بولے۔ ’’اچھا
بانکے تو جاؤ…۔‘‘
بانکے تسکین کا سانس لیتے ہوئے باہر آیا۔ شعیب کے ماتھے پر انفعال کے چند
قطرے نمودار ہوئے۔ انھوں نے پھر سے اپنے آپ کو تنہا پایا اور غصّے میں بولے —— ’’یہ
لوگ کسی قیمت پر بھی اپنے حلقے میں ہمیں داخل نہیں ہونے دیتے——ان کی بھی اپنی ہی ایک
منفی انانیت ہے—‘‘
لیکن ایک سوال رینگتا ہوا اُن کے ذہن میں آیا— ’’اُس منفی انانیت کا ذمّے
دار کون ہے؟‘‘
٭٭٭
No comments:
Post a Comment