ہم
زمانے میں جئے ہیں زندگی سے روٹھ کر
زلف
جاناں سے ملی فکر و نظر کی چاندنی
ظلمتیں
ہم نے نکھاریں روشنی سے روٹھ کر
سجدہ
الہام پایا بندگی سے روٹھ کر
غم
سے رونق ہو گئ کاشانۂ تقدیر میں
مطمئن
ہے دل کی دنیا ہر خوشی سے روٹھ کر
ایک
دن ساقی یہی ٹوٹے ہوئے جام و سبو
مے
کدے ترتیب دیں گے تشنگی سے روٹھ کر
سوچتے
ہیں حسرتوں کے موڑ پر شام و سحر
جائیں
گے ساغر کہاں ان کی گلی سے روٹھ کر
No comments:
Post a Comment