Showing posts with label Urdu Short Stories by Krishna Chander. Show all posts
Showing posts with label Urdu Short Stories by Krishna Chander. Show all posts

Sunday, 4 June 2017

" Aik Tawaif Ka Khat " A Famous Urdu Short Story By Krishna Chander

کرشن چندر اردو کے نامور افسانہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 23 نومبر 1914ء کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب (موجودہ پاکستان) میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے ۔ کرشن چندر کی تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے ہوا تھا۔ اس وجہ سے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929ء میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ اس کےبعد 1935ء میں انگریزی سے ایم ۔اے۔ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے قانون کی پڑھائی بھی کی تھی۔
کرشن چندر کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی تھے۔ خامہ فرسائی کے زریں دور کی بات کریں توپتہ چلتا ہے کہ کرشن چندر 1955ء سے لے کر 1960ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ ان کی کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘ اور ’ایک گدھے کی سرگذشت‘ کا فی مقبول ہوئے تھے۔
کرشن چندر نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے لکھے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو پردہ سیمیں پر پیش کیا۔
8 مارچ 1977ء کو کرشن چندر کا انتقال ہو گیا تھا۔(بشکریہ ویکیپیڈیا)


اور اب میں یہاں آپ کے سامنے کرشن چندر کا نہایت ہی مشہور افسانہ  " ایک طوائف کا خط" پیش کرنے جا رہا ہوں اُمید ہے کہ آپ لطف اندوز ہونگے۔
                      ایک طوائف کا خط

کرشن چندر
 مجھے امید ہے کہ اس سے پہلے آپ کو کسی طوائف کا خط نہ ملا ہو گا۔ یہ بھی امید کرتی ہوں کہ کہ آج تک آپ نے میری اور اس قماش کی دوسری عورتوں کی صورت بھی نہ دیکھی ہو گی۔ یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ کو میرا یہ خط لکھنا کس قدر معیوب ہے اور وہ بھی ایسا کھلا خط مگر کیا کروں حالات کچھ ایسے ہیں اور ان دونوں لڑکیوں کا تقاضا اتنا شدید ہو کہ میں یہ خط لکھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ خط میں نہیں لکھ رہی ہوں، یہ خط مجھ سے بیلا اور بتول لکھوا رہی ہیں۔  میں صدق دل سے معافی چاہتی ہوں، اگر میرے خط میں کوئی فقرہ آپ کو ناگوار گزرے۔ اسے میری مجبوری پر محمول کیجئے گا۔
بیلا اور بتول مجھ سے یہ خط کیوں لکھوا رہی ہیں۔ یہ دونوں لڑکیاں کون ہیں اور ان کا تقاضا اس قدر شدید کیوں ہے۔ یہ سب کچھ بتانے سے پہلے میں آپ کو اپنے متعلق کچھ بتانا چاہتی ہوں، گھبرایئے نہیں۔ میں آپ کو اپنی گھناؤنی زندگی کی تاریخ سے آگاہ نہیں کرنا چاہتی۔ میں یہ بھی نہیں بتاؤں گی کہ میں کب اور کن حالات میں طوائف بنی۔ میں کسی شریفانہ جذبے کا سہارا لے کر آپ سے کسی جھوٹے رحم کی درخواست کرنے نہیں آئی ہوں۔ میں آپ کے درد مند دل کو پہچان کر اپنی صفائی میں جھوٹا افسانہ محبت نہیں گھڑنا چاہتی۔ اس خط کے لکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو طوائفیت کے اسرارو رموز سے آگاہ کروں مجھے اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہنا ہے۔ میں صرف اپنے متعلق چند ایسی باتیں بتانا چاہتی ہوں جن کا آگے چل کر بیلا اور بتول کی زندگی پر اثر پڑ سکتا ہے۔
آپ لوگ کئی بار بمبئی آئے ہوں گے جناح صاحب نے تو بمبئی کو بہت دیکھا ہو مگر آپ نے ہمارا بازار کاہے کو دیکھا ہو گا۔ جس بازار میں میں رہتی ہوں وہ فارس روڈ کہلاتا ہے۔ فارس روڈ، گرانٹ روڈ اور مدن پورہ کے بیچ میں واقع ہے۔ گرانٹ روڈ کے اس پار لمنگٹم روڈ اور اوپر ہاؤس اور چوپاٹی میرین ڈرائیور اور فورٹ کے علاقے ہیں جہاں بمبئی کے شرفا رہتے ہیں۔ مدن پورہ میں اس طرف غریبوں کی بستی ہو۔ فارس روڈ ان دونوں کے بیچ میں ہے تاکہ میرا اور غریب اس سے یکساں مستفید ہو سکیں۔ گور فارس روڈ پھر بھی مدن پورہ کے زیادہ قریب ہے کیونکہ ناداری میں اور طوائفیت میں ہمیشہ بہت کم فاصلہ رہتا ہے۔ یہ بازار بہت خوبصورت نہیں ہے، اس کے مکین بھی خوبصورت نہیں ہیں اس کے بیچوں بیچ ٹرام کی گڑ گڑاہٹ شبو روز جاری رہتی ہے۔ جہاں بھر کے آوارہ کتے اور لونڈے اور شہدے اور بے کار اور جرائم پیشہ مخلوق اس کی گلیوں کا طواف کرتی نظر آتی ہے۔ لنگڑے، لولے، اوباش، مدقوق تماش بین۔ آتشک د سوزاک کے مارے ہوئے کانے، لنجے، کوکین باز اور جیب کترے اس بازار میں سینہ تان کر چلتے ہیں۔ غلیظ ہوٹل، سیلے ہوئے فٹ پاتھ پر میلے کے ڈھیروں پر بھنبھناتی ہوئی لاکھوں مکھیاں لکڑیوں اور کوئلوں کے افسردہ گودام، پیشہ ور دلال اور باسی ہار بیچنے والے کوک شاستر اور ننگی تصویروں کے دکان دار چین حجام اور اسلامی حجام اور لنگوٹے کس کر گالیاں بکنے والے پہلوان، ہماری سماجی زندگی کا سارا کوڑا کرکٹ آپ کو فارس روڈ پر ملتا ہے۔ ظاہر ہے آپ یہاں کیوں آئیں گے۔ کوئی شریف آدمی ادھر کا رخ نہیں کرتا، شریف آدمی جتنے ہیں وہ گرانٹ روڈ کے اس پار رہتے ہیں اور جو بہت ہی شریف ہیں وہ ملبار ہل پر قیام کرتے ہیں۔ میں ایک بار جناح صاحب کی کوٹھی کے سامنے سے گزری تھی اور وہاں میں نے جھک کر سلام بھی کیا تھا بتول بھی میرے ساتھ تھی۔ بتول کو آپ سے (جناح صاحب) جس قدر عقیدت ہے اس کو میں کبھی ٹھیک طرح سے بیان نہ کر سکوں گی۔ خدا اور رسول کے بعد دنیا میں اگر وہ کسی کو چاہتی ہو تو صرف وہ آپ ہیں۔ اس نے آپ کو تصویر لاکٹ میں لگا کر اپنے سینے سے لگا رکھی ہو۔ کسی بری نیت سے نہیں۔ بتول کی عمر ابھی گیارہ برس کی ہے، چھوٹی سی لڑکی ہی تو ہے وہ۔ گو فارس روڈ والے ابھی سے اس کے متعلق برے برے ارادے کر رہے ہیں مگر خیر وہ کبھی بھی آپ کو بتاؤں گی۔ تو یہ ہے فارس روڈ جہاں میں رہتی ہوں، فارس روڈ کے مغربی سرے پر جہاں چینی حجام کی دکان ہے اس کے قریب ایک اندھیری گلی کے موڑ پر میری دکان ہے۔ لوگ تو اسے دکان نہیں کہتے مگر خیر آپ دانا ہیں آپ سے کیا چھپاؤں گی۔ یہی کہوں گی وہاں پر میری دکان ہے اور وہاں پر میں اس طرح بیوپار کرتی ہوں جس طرح بنیاد، سبزی والا، پھل والا، ہوٹل والا، موٹر والا، سینیما والا، کپڑے والا یا کوئی اور دوکاندار بیوپار کرتا ہے اور ہر بیوپار میں گاہک کو خوش کرنے کے علاوہ اپنے قائدہ کی بھی سوچتا ہے۔ میرا بیوپار بھی اسی طرح کا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ میں بلیک مارکٹ نہیں کرتی اور مجھ میں اور دوسرے بیوپاریوں میں کوئی فرق نہیں۔ یہ دوکان اچھی جگہ پر واقع نہیں ہے۔ یہاں رات تو کجا دن میں بھی لوگ ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ اس اندھیری گلی میں لوگ اپنی جیبیں خالی کر کے جاتے ہیں۔ شراب پی کر جاتے ہیں۔ جہاں بھر کی گالیاں بکتے ہیں۔ یہاں بات بات پر چھرا زنی ہوتی ہے وہ ایک خوں دوسرے تیسرے روز ہوتے رہتے ہیں۔ غرضیکہ ہر وقت جان ضیق میں رہتی ہے اور پھر میں کوئی اچھی طوائف نہیں ہوں کہ پون جا کے رہوں یا ورلی پر سمندر کے کنارے ایک کوٹھی لے سکوں۔ میں ایک بہت ہی معمولی درجے کی طوائف ہوں اور اگر میں نے سارا ہندوستان دیکھا ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے اور ہر طرح کے لوگوں کی صحبت میں بیٹھی ہوں لیکن اب دس سال سے اسی شہر بمبئی میں۔ اسی فارس روڈ پر۔ اسی دکان میں بیٹھی ہوں اور اب تو مجھے اس دکان کی پگڑی بھی چھ ہزار روپے تک ملتی ہے۔ حالانکہ یہ جگہ کوئی اتنی اچھی نہیں۔ فضا متعفن ہے کیچڑ چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ گندگی کے انبار لگے ہوئے ہیں اور خارش زدہ کتے گھبرائے ہوئے گاہکوں کی طرف کاٹ کھانے کو لپکتے ہیں پھر بھی مجھے اس جگہ کی پگڑی چھ ہزار روپے تک ملتی ہے۔ اس جگہ میری دکان ایک منزلہ مکان میں ہے۔ اس کے دو کمرے ہیں۔ سامنے کا کمرہ میری بیٹھک ہو۔ یہاں میں گاتی ہوں، ناچتی ہوں، گاہکوں کو رجھاتی ہوں، پیچھے کا کمرہ، باورچی خانے اور غسل خانے اور سونے کے کمرے کا کام دیتا ہے۔ یہاں ایک طرف نل ہے۔ ایک طرف ہنڈیا ہے اور ایک طرف ایک بڑا سا پلنگ ہے اور اس کے نیچے ایک اور چھوٹا سا پلنگ ہے اور اس کے نیچے میرے کپڑوں کے صندوق ہیں، باہر والے کمرے میں بچلی کی روشنی ہے لیکن اندر والے کمرے میں بالکل اندھیرا ہے۔ مالک مکان نے برسوں سے قلعی نہیں کرائی نہ وہ کرائے گا۔ اتنی فرصت کسے ہے۔ میں تو رات بھر ناچتی ہوں، گاتی ہوں اور دن کو وہیں گاؤ تکیے پر سر ٹیک کر سو جاتی ہوں، بیلا اور بتول کو پیچھے کا کمرہ دے رکھا ہے۔ اکثر گاہک جب ادھر منہ دھونے کے لیے جاتے ہیں تو بیلا اور بتول پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگ جاتی ہیں جو کچھ ان کی نگاہیں کہتی ہیں۔ میرا یہ خط بھی وہی کہتا ہے۔ اگر وہ میرے پاس اس وقت نہ ہوتیں تو یہ گناہ گار بندی آپ کی خدمت میں یہ گستاخی نہ کرتی، جانتی ہوں دنیا مجھ پر تھو تھو کرے گی ناتی ہوں شاید آپ تک میرا یہ خط بھی نہ پہنچے گا۔ پھر بھی مجبور ہوں یہ خط لکھ کے رہوں گی کہ بیلا اور بتول کی مرضی یہی ہے۔
شاید آپ قیاس کر رہے ہوں کہ بیلا اور بتول میری لڑکیاں ہیں۔ نہیں یہ غلط ہے میری کوئی لڑکی نہیں ہے۔ ان دونوں لڑکیوں کو میں نے بازار سے خریدا ہے۔ جن دنوں ہندو مسلم فساد زوروں پر تھا، اور گرانٹ روڈ، اور فارس روڈ اور مدن پورہ پر انسانی کون پانی کی طرح بہایا جا رہا تھا۔ ان دنوں میں نے بیلا کو ایک مسلمان دلال سے تین سو روپے کے عوض کریدا تھا۔ یہ مسلمان دلال اس لڑکی کو دہلی سے لایا تھا جہاں بیلا کے ماں باپ رہتے تھے۔ بیلا کے ماں باپ راولپنڈی میں راجہ بازار کے عقب میں پونچھ ہاؤس کے سامنے کی گلی میں رہتے تھے، متوسط طبقے کا گھرانہ تھا، شرافت اور سادگی گھٹی میں پڑی تھی۔ بیلا اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور جب راولپنڈی میں مسلمانوں نے ہندوؤں کو تہ تیغ کرنا شروع کیا اس وقت چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ یہ بارہ جولائی کا واقعہ ہے۔ بیلا اپنے اسکول سے پڑھ کر گھر آ رہی تھی کہ اس نے اپنے گھر کے سامنے اور دوسرے ہندوؤں کے گھروں کے سامنے ایک جم غفیر دیکھا۔ یہ لوگ مسلح تھے اور گھروں کو آگ لگا رہے تھے اور لوگوں کو اور ان کے بچوں کو اور ان کی عورتوں کو گھر سے باہر نکال کر انہیں قتل کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ بھی بلند کرتے جاتے تھے۔ بیلا نے اپنی آنکھوں سے اپنے باپ کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس نے اپنی آنکھوں سے اپنی ماں کو دم توڑتے ہوئے دیکھا۔ وحشی مسلمانوں نے اس کے پستان کاٹ کر پھینک دیئے تھے۔ وہ پستان جن سے ایک ماں کوئی ماں، ہندو ماں یا مسلمان ماں، عیسائی ماں یا یہودی ماں اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے اور انسانوں کی زندگی میں کائنات کی وسعت میں تخلیق کا ایک نیا باب کھولتی ہے وہ دودھ بھرے پستان اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ کاٹ ڈالے گئے۔ کسی نے تخلیق کے ساتھ اتنا ظلم کیا تھا۔ کسی ظالم اندھیرے نے ان کی روحوں میں یہ سیاہی بھر دی تھی۔ میں نے قرآن پڑھا ہے اور میں جانتی ہوں کہ راولپنڈی میں بیلا کے ماں باپ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اسلام نہیں تھا وہ انسانیت نہ تھی، وہ دشمنی بھی نہ تھی، وہ انتقال بھی نہ تھا، وہ ایک ایسی سعادت، بے رحمی، بزدلی اور شیطنت تھی جو تاریخی کے سینے سے پھوٹتی ہے اور نور کی آخری کرن کو بھی داغدار کر جاتی ہے۔ بیلا اب میرے پاس ہے۔ مجھ سے پہلے وہ داڑھی والے مسلمان دلال کے پاس تھی بیلا کی عمر بارہ سال سے زیادہ نہیں تھی جب وہ چوتھی جماعت میں پڑھتی تھی۔ اپنے گھر میں ہوتی تو آج پانچویں جماعت میں داخل ہو رہی ہوتی۔ پھر بڑی ہوتی تو اس کے ماں باپ اس کا بیاہ کسی شریف گھرانے کے غریب سے لڑکے سے کر دیتے، وہ اپنا چھوتا سا گھر بساتی، اپنے خاوند سے۔ اپنے ننھے ننھے بچوں سے، اپنی گھریلو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے۔ لیکن اس نازک کلی کو بے وقت خزاں آ گئی، اب بیلا بارہ برس کی نہیں معلوم ہوتی۔ اس کی عمر تھوڑی ہے لیکن اس کی زندگی بہت بوڑھی ہے۔ اس کی آنکھوں میں جو ڈر ہے۔ انسانیت کی جو تلخی ہے یا اس کا جو لہو ہے موت کی جو پیاس ہے قائد اعظم صاحب شاید اگر آپ اسے دیکھ سکیں تو اس کا اندازہ کر سکیں۔ ان بے آسرا آنکھوں کی گہرائیوں میں اتر سکیں۔ آپ تو شریف آدمی ہیں۔ آپ نے شریف گھرانے کی معصوم لڑکیوں کو دیکھا ہو گا ہندو لڑکیوں کو مسلمان لڑکیوں کو، شاید آپ سمجھ جاتے کہ معصومیت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ ساری انسانیت کی امانت ہے۔ ساری دنیا کی میراث ہے جو اسے مٹاتا ہے اسے دنیا کے کسی مذہب کا کوئی خدا معاف نہیں کر سکتا۔ بتول اور بیلا دونوں سگی بہنوں کی طرح میرے ہاں رہتی ہیں۔ بتول اور بیلا سگی بہنیں نہیں ہیں۔ بتول مسلمان لڑکی ہے۔ بیلا نے ہندو گھر میں جنم لیا۔ آج دونوں فارس روڈ پر ایک رنڈی کے گھر میں بیٹھی ہیں۔
اگر بیلا راولپنڈی سے آئی ہے تو بتول جالندھر کے ایک گاؤں کھیم کرن کے ایک پٹھان کی بیٹی ہے۔ بتول کے باپ کی سات بیٹیاں تھیں، تین شادی شدہ اور چار کنواریاں، بتول کا باپ کھیم کرن میں ایک معمولی کاشتکار تھا۔ غریب پٹھان لیکن غیور پٹھان جو دیوں سے کھیم کرن میں آ کے بس گیا تھا۔ جاٹوں کے اس گاؤں میں یہی تین چار گھر پٹھانوں کے تھے، یہ لوگ جس حلمو آشتی سے رہتے تھے شاید اس کا اندازہ پنڈت جی آپ کو اس امر سے ہو گا کہ مسلمان ہونے پر بھی ان لوگوں کو اپنے گاؤں میں مسجد بنانے کی اجازت نہ تھی۔ یہ لوگ گھر میں چپ چاپ اپنی نماز ادا کرتے، صدیوں سے جب سے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے عنان حکومت سنبھالی تھی کسی مومن نے اس گاؤں میں اذان نہ دی تھی۔ ان کا دل عرفان سے روشن تھا لیکن دنیاوی مجبوریاں اس قدر شدید تھیں اور پھر رواداری کا خیال اس قدر غالب تھا کہ لب وا کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ بتول اپنے باپ کی چہیتی لڑکی تھی۔ ساتوں میں سب سے چھوٹی، سب سے پیاری، سب سے حسین، بتول اس قدر حسین ہے کہ ہاتھ لگانے سے میلی ہوتی ہے، پنڈت جی آپ تو خود کشمیری النسل ہیں اور فن کار ہو کر یہ بھی جانتے ہیں کہ خوبصورتی کسے کہتے ہیں۔ یہ خوبصورتی آج میری گندگی کے ڈھیر میں گڈمڈ ہو کر اس طرح پڑی ہے کہ اس کا پرکھ کرنے والا کوئی شریف آدمی اب مشکل سے ملے گا، اس گندگی میں گلے سڑے مارداڑی، گھن، مونچھوں والے ٹھیکیدار، ناپاک نگاہوں والے چار بازاری ہی نظر آتے ہیں۔ بتول بالکل ان پڑھ ہے۔ اُس نے صرف جناح صاحب کا نام سنا تھا، پاکستان کو ایک اچھا تماشہ سمجھ کر اس کے نعرے لگائے تھے۔ جیسے تین چاور برس کے ننھے بچے گھر میں انقلاب زندہ باد، کرتے پھرتے ہیں، گیارہ برس ہی کی تو وہ ہے۔ ان پڑھ بتول، وہ چند دن ہی ہوئے میرے پاس آئی ہے۔ ایک ہندو دلال اسے میرے پاس لایا تھا۔ میں نے اسے پانچ سو روپے مین کرید لیا۔ اس سے پہلے وہ کہاں تھی۔ یہ میں نہیں کہہ سکتی۔ ہاں لیڈی ڈاکٹر نے مجھ سے بہت کچھ کہا ہے کہ اگر آپ اسے سن لیں تو شاید پاگل ہو جائیں۔ بتول بھی اب نیم پاگل ہے۔ اس کے باپ کو جاٹوں نے اس بیدردی سے مارا ہے کہ ہندو تہذیب کے پچھلے چھ ہزار برس کے چھلکے اتر گئے ہیں اور انسانی بربریت اپنے وحشی ننگے روپ میں سب کے سامنے آ گئی ہے۔ پہلے تو جاٹوں نے اس کی آنکھیں نکال لیں۔ پھر اس کے منہ میں پیشاب کیا، پھر اس کے حلق کو چیر کر اس کی یہ آنتیں تک نکال ڈالیں۔ پھر اس کی شادی شدہ بیٹیوں سے زبردستی منہ کالا کیا۔ اسی وقت ان کے باپ کی لاش کے سامنے، ریحانہ، گل درخشاں، مرجانہ، سوہن، بیگم، ایک ایک کر کے وحشی انسان نے اپنے مندر کی مورتیوں کو ناپاک کیا۔ جس نے انہیں زندگی عطا کی، جس نے انہیں لوریاں سنائی تھیں، جس نے ان کے سامنے شرم اور عجز سے اور پاکیزگی سے سر جھکا دیا تھا۔ ان تمام بہنوں، بہوؤں اور ماؤں کے ساتھ زنا کیا۔ ہندو دھرم نے اپنی عزت کھودی تھی اپنی رواداری تباہ کر دی تھی، اپنی عظمت مٹا ڈالی تھی، آج رگ دید کا ہر منتر خاموش تھا۔ آج گرنتھ صاحب کا ہر دوہا شرمندہ تھا۔ آج گیتا کا ہرا شلوک زخمی تھا۔ کون ہے جو میرے سامنے اجنتا کی مصوری کا نام لے سکتا ہے۔ اشوک کے کتبے سنا سکتا ہے، ایلورا کے صنم زادوں کے گن گا سکتا ہے۔ بتول کے بے بس بھنچے ہوئے ہونٹوں، اس کی بانہوں پر وحشی درندوں کے دانتوں کے نشان اور اس کی بھری ہوئی ٹانگوں کی ناہمواری میں تمہاری اجنتا کی موت ہے۔ تمہارے ایلورا کا جنازہ ہے۔ تمہاری تہذیب کا کفن ہے۔ آؤ آؤ میں تمہیں اس خوبصورتی کو دکھاؤں جو کبھی بتول تھی۔ اس متعفن لاش کو دکھاؤں جو آج بتول ہے۔
جذبے کی رو میں بہہ کر میں بہت کچھ کہہ گئی۔ شاید یہ سب مجھے نہ کہنا چاہئے تھا۔ شاید اس میں آپ کی سبکی ہے۔ شاید اس سے زیادہ ناگوار باتیں آپ سے اب تک کسی نے نہ کی ہوں نہ سنائی ہوں گی۔ شاید آپ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے۔ شاید تھوڑا بھی نہیں کر سکتے۔ پھر بھی ہمارے ملک میں آزادی آ گئی ہے۔ ہندوستان میں اور پاکستان میں اور شاید ایک طوائف کو بھی اپنے رہنماؤں سے پوچھنے کا یہ حق ضرور ہے کہ اب بیلا اور بتول کا کیا ہو گا۔ بیلا اور بتول دو لڑکیاں ہیں دو قومیں ہیں دو تہذیبیں ہیں۔ دو مندر اور مسجد ہیں۔ بیلا اور بتول آج کل فارس روڈ پر ایک رنڈی کے ہاں رہتی ہیں جو چینی حجام کی بغل میں اپنی دکان کا دھندا چلاتی ہے۔ بیلا اور بتول کو یہ دھندا پسند نہیں۔ میں نے انہیں خریدا ہے۔ میں چاہتوں تو ان سے یہ کام لے سکتی ہوں۔ لیکن میں سوچتی ہوں میں یہ کام نہیں کروں گی جو راولپنڈی اور جالندھر نے ان سے کیا ہے۔ میں نے انہیں اب تک فارس روڈ کی دنیا سے الگ تھلگ رکھا ہے۔ پھر بھی جب میرے گاہک پچھلے کمرے میں جا کر اپنا منہ ہاتھ دھونے لگتے ہیں، اس وقت بیلا اور بتول کی نگاہیں مجھ سے کہنے لگتی ہیں مجھے ان نگاہوں کی تاب نہیں۔ میں ٹھیک طرح سے ان کا سندیسہ بھی آپ تک نہیں پہنچا سکتی ہوں۔ آپ کیوں نہ خود ان نگاہوں کا پیغام پڑھ لیں۔ پنڈت جی میں چاہتی ہوں کہ آپ بتول کو اپنی بیٹی بنا لیں۔ جناح صاحب میں چاہتی ہوں کہ آپ بیلا کو اپنی دختر نیک اختر سمجھیں ذرا ایک دفعہ انہیں اس فارس روڈ کے چنگل سے چھڑا کے اپنے گھر میں رکھے اور ان لاکھوں روحوں کا نوحہ سنئے۔ یہ نوحہ جو نواکھالی سے راولپنڈی تلک اور بھرت پور سے بمبئی تک گونج رہا ہے۔ کیا صرف گورنمنٹ ہاؤس میں اس کی آواز سنائی نہیں دیتی، یہ آواز سنیں گے آپ؟
آپ کی مخلص
فارس روڈ کی ایک طوائف

٭٭٭

Saturday, 3 June 2017

" Mamta " A Famous Urdu Short Story By Krishna Chander

کرشن چندر اردو کے نامور افسانہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 23 نومبر 1914ء کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب (موجودہ پاکستان) میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے ۔ کرشن چندر کی تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے ہوا تھا۔ اس وجہ سے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929ء میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ اس کےبعد 1935ء میں انگریزی سے ایم ۔اے۔ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے قانون کی پڑھائی بھی کی تھی۔
کرشن چندر کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی تھے۔ خامہ فرسائی کے زریں دور کی بات کریں توپتہ چلتا ہے کہ کرشن چندر 1955ء سے لے کر 1960ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ ان کی کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘ اور ’ایک گدھے کی سرگذشت‘ کا فی مقبول ہوئے تھے۔
کرشن چندر نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے لکھے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو پردہ سیمیں پر پیش کیا۔
8 مارچ 1977ء کو کرشن چندر کا انتقال ہو گیا تھا۔(بشکریہ ویکیپیڈیا)


اور اب میں یہاں آپ کے سامنے کرشن چندر کا نہایت ہی مشہور افسانہ  " مَمتا " پیش کرنے جا رہا ہوں اُمید ہے کہ آپ لطف اندوز ہونگے۔ 
    مَمتا
کرشن چندر
 یہ کوئی دو بجے کا وقت تھا، بادلوں کا ایک ہلکا سا غلاف چاند کو چھپائے ہوئے تھے۔ یکا یک میری آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ساتھ والی چارپائی پر اماں سسکیاں لے رہی ہیں
’’کیوں امی؟‘‘میں ‌نے گھبرا کر آنکھیں ملتے ملتے پوچھا۔
’’کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امی!‘‘اماں نے سسکیاں اور ہچکیوں کے درمیاں میرے سوال کو غصہ سے دہراتے ہوئے کہا۔ ’’شرم نہیں آتی، باپ کو بھی اور بیٹے کو بھی اتنے بڑے ہو گئے ہو، کچھ خدا کا خوف نہیں۔ ‘‘
’’آخر ہوا کیا؟‘‘میں نے جلدی سے بات کاٹ کر پوچھا۔ ’’یہ آدھی رات کے وقت رونا کیسا؟‘‘
گریوں کے دن تھے ہم سب برآمدے میں سو رہے تھے۔ مگر ابا اندر سامنے ایک کمرے میں سو رہے تھے۔ ان کی طبیعت ناساز تھی اور انھیں اکثر گرمیوں میں بھی سردی لگ جانے کا اندیشہ لاحق رہتا تھا۔ اس لیے عموماً وہ اندر ہی سویا کرتے ہیں۔ آخر ان کی آنکھ بھی کھل گئی۔ وہیں بستر پر سے کروٹ بدل کر بولے۔ ’’کیا بات ہے وحید؟ تمہاری اماں کیوں رو رہی ہے؟‘‘
’’میں کیا بتاؤں ابا۔ بس رو رہی ہیں۔ ‘‘
’’ہاں اور تمھیں کس بات کی فکر ہے۔ ‘‘اماں کی ہچکیاں اور تیز ہو گئیں۔ ’’پتہ نہیں میرا لال اس وقت کس حالت میں ہے۔ میرا چھوٹا محمود، اور تم یہاں پڑے سو رہے ہو۔ وہاں اس کا کون ہے، نہ ماں، نہ بھائی، نہ بہن اور تم خراٹے لے رہے ہو۔ آرام سے جیسے تمھیں کسی بات کی فکر ہی نہیں (سسکتے ہوئے(میں نے ابھی ابھی اپنے چھوٹے محمود کو خواب میں دیکھا ہے۔ وہ ایک میلے کچیلے بستر میں پڑا بخار سے تپ رہا تھا۔ اس کا پنڈا تنور کی طرح گرم تھا۔ وہ کراہتے ہوئے اماں، اماں کہہ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘یہ کہہ کر اماں زور زور سے رونے لگیں۔
اماں کا ’’چھوٹا محمود‘‘ اور میرا بڑا بھائی لاہور بی۔ اے میں تعلیم پاتا تھا، تھرڈ ایر میں، میں ایف اے کا امتحان دے کر لاہور سے یہاں مئی کے مہینے ہی میں ‌آ گیا تھا، مگر محمود کو ابھی ہالور کی تپتی ہوئی فضاؤں میں پورا ایک مہینہ اور گزارنا تھا۔ لیکن اب جون کا مہینہ بھی گزر گیا تھا اور محمود ابھی تک لاہور سے واپس نہ آیا تھا۔ اماں بہت پریشان تھیں اور سچ پوچھیے تو ہم سب بہت پریشان تھے۔ ہم نے اسے پرسوں ایک تار بھی دے دیا تھا اور مدتوں کے بعد اچانک محمود کا ایک خط بھی آیا تھا۔ چند منحنی سطور تھیں۔ لکھا تھا۔ ’’میں بیمار ہوں، ملیریے کا بخار ہے۔ لیکن اب ٹوٹ رہا ہے۔ چند دنوں سے یہاں بہت بارش ہو رہی ہے۔ اگر لاہور کا یہ حال ہے تو اسلام آباد میں کیا ہو گا۔ کیا کشمیر آنے کا راستہ کھل گیا۔ لدی لکھیے کہ کس راستے سے آؤں، کیا جموں بانہال روڈ سے آؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ کوہالہ اوڑی سڑک سے، کون سا راستہ بہتر رہے گا؟‘‘ہم نے سوچ بچار کے بعد ایک تار اور دے دیا تھا۔ گو بارش بہت ہو رہی تھی اور دونوں سڑکیں شکستہ حالت میں تھیں۔ پھر بھی کوہالہ اوڑی روڈ، بانہال روڈ سے بہتر حالت میں تھی۔ اس لیے یہی مناسب سمجھا کہ محمود کو ہالہ روڈ ہی سے آئے۔ اب آدھی رات کے وقت یہ افتاد آ پڑی۔
ابا کی نیند پریشان ہو گئی تھی چیں بجیں ہوتے ہوئے بولے۔ ’’تو اس کا کیا کیا جائے؟ اور تمھیں تو یونہی دل میں وسوسے اٹھا کرتے ہیں۔ بھلا اس کا علاج کیا؟ آخر محمود کوئی بچہ تو نہیں؟ تمھیں فکر کس بات کی ہے۔ ہزاروں ماؤں کے لال لاہور میں پڑھتے ہیں اور ہوسٹلوں میں رہتے ہیں۔ آتا ہی ہو گا، اگر آج صبح وہ لاہور سے چلا تو شام کو وہ راولپنڈی پہنچ گیا ہو گا کل کوہالہ اور۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اماں جلدی سے بولیں۔ ’’اور۔ ۔ ۔ ۔ اور؟ کیا غضب کرتے ہو اور اگر خدا نہ کرے۔ اس کا بخار ابھی نہ ٹوٹا ہو تو پھر؟ میں پوچھتی ہوں تو پھر؟‘‘یہ کہ کر اماں رک گئیں اور دوپٹے سے آنسو پونچھ کر کہنے لگیں۔
’’مجھے موٹر منگوا دو۔ میں ابھی لاہور جاؤں گی۔ ‘‘
’’اب تم سے کون بحث کرے ہمیں تو نیند آئی ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر ابا کروٹ بدل کر سو رہے۔ میں نے بھی یہی‌مناسب جان کر آنکھیں بند کر لیں۔ مگر کانوں میں ماں کی مدھم سسکیوں کی آواز جسے وہ دبانے کی بہت کوشش کر رہی تھیں برابر آ رہی تھی۔ کیا دل ہے ماں کا اور کتنی عجیب ہستی ہے اس کی؟ میں آنکھیں بند کیے سوچنے لگا۔ ماں کا دل، ماں کی محبت، مامتا، کس قدر عجیب جذبہ ہے، عالمِ جذبات میں اس کی نظیر ملنی محال ہے۔ نہیں یہ تو اپنی نظیر آپ ہے۔ ایک سپنے کے دھندے لکے میں اپنے بیمار بیٹے کو دیکھتی ہے اور چونک پڑتی ہے۔ لرز جاتی ہے۔ مامتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا اس جذبے کا اساس محض جسمانی ہے، محض اس لیے کہ بیٹا ماں کے گوشت و پوست کا ایک ٹکڑا ہے؟ اور کیا ہم سچ مچ فلابیر کے تخیل کے مطابق اس کائنات میں اکیلے ہیں، تنہا، بے یار و مددگار، ایک دوسرے کو سمجھتے ہوئے بھی ناآشنا، مگر میں بھی تو محمود کا بھائی ہوں، میری رگوں میں وہی خون موجزن ہے، ہم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کے ان بیس سالوں میں صرف دو دفعہ محمود سے جدا ہوا ہوں اور وہ بھی نہایت قلیل عرصوں کے لیے۔ پھر میں کیوں اس قدر اس کے لیے بیتاب و بیقرار نہیں۔ مامتا۔ ۔ ۔ ۔ کیا ہم سچ مچ پتھروں کے تودوں کی طرح ہیں مصر کے میناروں کی طرح خوبصورت لیکن بے جان اشوک کے کتبوں کی طرح سبق آموز لیکن بے حس، بے روح؟مامتا!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدھ نے کہا تھا کہ یہ دنیا دھوکا ہے، سراب ہے، مایا ہے، ہو گی۔ لیکن یقین نہیں پڑتا آخر یہ حسین جذبہ کہاں سے آیا؟ اور کائنات کے ایک گوشے میں سسکتی ہوئی اماں کیا یہ بھی ایک دھوکا ہے؟ سچ جانیے یقین نہیں پڑتا ہے۔
چھوٹا محمود۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا ننھا محمود۔ ۔ ۔ ۔ میرا لال
امی ہلکی ہچکیوں میں بھائی کا نام لے رہی تھیں۔ کتنی معمولی سی بات تھی۔ بھائی جان شاہد ابھی لاہو رہی میں ہوں گے۔ ضیافتیں اڑاتے ہوں گے، سینما دیکھتے ہوں گے۔ یا اگر لاہور سے چلے آئے ہوں تو راولپنڈی میں اس وقت خوابِ خرگوش میں پڑے خراٹے لے رہے ہوں گے۔ ملیریا کیا عجب ملیریا کا بخار مطلق ہی نہ ہو۔ میں بھائی جان کے بہانوں کو خوب جانتا ہوں، اماں بھی جانتی ہیں مگر پھر بھی رو رہی ہیں۔ آخر کیوں؟ مامتا! شاہد یہ کوئی روحانی قرابت ہے، شاید اس دنیا کے وسیع صحرا میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ شاید ہم محض پتھروں کے تودوں کی طرح نہیں ہیں۔ شاید اس انسانی مٹی میں کسی ازلی آگ کے شعلوں کی تڑپ ہے معاِِ مجھے موپاساں کا افسانہ ’’تن تنہا‘‘ یاد آ گیا۔ جس میں اس نے اس شدید احساس تنہائی کا رونا رویا ہے۔ آہ بے چارہ موپاساں، وہ ایک ماہر نفسیات تھا اور ایک ماہر نفسیات کی طرح وہ کئی بار نفسیاتی واردات کا صحیح اندازہ کرنے سے قاصر رہا اس کے افکار نے اسے کثرت غلط راستہ پر ڈال دیا۔ ’’تن تنہا‘‘ ایک ایسی ہی مثال ہے۔ وہ لکھتا ہے:۔
’’عورت ایک سراب ہے اور حسن ایک فروعی امر۔ ہم ایک دوسرے کے متعلق کچھ نہیں جانتے، میاں بیوی سالہا سال ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بیگانہ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو دوست ملتے ہیں اور ہر دوسری ملاقات میں ایک دوسرے  سے دور چلے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ نسوانی محبت مستقل دھوکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب میں عورت کو دیکھتا ہوں تو مجھے چاروں طرف موت ہی موت نظر آتی ہے۔ ‘‘
میں نے آنکھیں کھول کر اماں کی طرف دیکھا، امی روتے روتے سو گئی تھیں، گال آنسوؤں سے گیلے تھے اور بند آنکھوں کی پکوں پر آنسو چمک رہے تھے۔ کیا امی موت ہے؟ اور کیا مامتا بھی کوئی ایسا ہی ہلاکت آفریں جذبہ ہے؟ شاید موپاساں غلطی پر تھا، شاید اسے یہ لکھتے وقت اپنی شفیق ماں کی یاد نہ آئی تھی۔ وہ اس کی جان بخش لوریاں، وہ نرم نرم تھپکیاں جبکہ وہ بچوں کی طرح صرف ’’اوں اوں ‘‘کہہ کر بلبلا اٹھتا تھا اور اس کی چھاتی سے لپٹ جاتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نسوانی محبت مستقل دھوکا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاید اسے اپنی اماں کے وہ طویل بوسے بھول گئے کہ جب بڑا ہونے پر بھی اس کا نفسیاتی سر اپنے بازوؤں میں لے لیتی تھی اور پیار کرتی تھی۔ جب وہ مامتا سے بیقرار ہو جاتی تھی اور ان کی غیر حاضری میں بھی اس کی راہ دیکھا کرتی تھی۔ اس کی ہر غلطی کو بچوں کی بھول سے تعبیر کیا کرتی تھی اور گناہ کو نیکی میں مبدل کر دیتی تھی۔ اس دنیا میں ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں وہ اس شدید احساس تنہائی جس کی موپاساں کو شکایت ہے، جو دنیاوی کلفتوں اور الفتوں میں بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا، نجانے وہ ماں کی گود میں آ کر کیسے ناپید ہو جاتا ہے؟ ماں کے جذبہ محبت میں ایک ایسی دیوانگی و وارفتگی ہے جو اس کی انانیت کو فنا کر دیتی ہے اور اس کی ذات کو بچوں میں منتقل کر دیت ہے۔ یقیناً ہم اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں۔ بلکہ ہمارے ساتھ ہماری مائیں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔
غٹر غوں، غٹر غوں، ککڑوں کوں، کبوتر، مرغ، چڑیاں، دوشیزہ سحر کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ ان کی خوش الحانی نے مجھے بیدار کر دیا، میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ ٹانگیں چار پائی سے نیچے لٹکا دیں اور آنکھیں ملنے گا۔ اتنے میں آنگن سے اماں کی آواز آئی۔
’’بیٹا وحید اٹھو، محمود آ گئے۔ ‘‘
آنکھیں کھول کر دیکھا تو سچ مچ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اماں آنگن میں اگے ہوئے پنجتار کے بوٹے کے نیچے ایک مونڈے پر بیٹھی تھیں اور محمود ان کے پیروں پر جھکا ہوا تھا۔ میں جلدی سے اٹھا آنگن میں ہم دونوں بھائی بغل گیر ہوئے۔
’’اتنے دن کہاں رہے‘‘ میں نے محمود سے پوچھا۔
محمود نے شوخ نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور ایک آنکھ میچ لی۔ پھر گردن موڑ کر پنچ تارے کے سرخ سرخ پھولوں کے گچھوں کو غور سے دیکھنے لگا۔
’’کوئی سات روز جھڑی رہی، متواتر بارش ہونے سے سڑک جا بجا سے بہ گئی تھی اور سپرنٹنڈنٹ ٹریفک نے راستہ بند کر دیا تھا۔ ‘‘اس نے آہستہ سے جواب دیا اور یہ کہہ کر ایک ہاتھ میرے ہاتھ کو پکڑ کر زور سے ہلانے لگا۔
اماں کدو چھیل رہی تھیں اور ہم دونوں کو دیکھتی جاتی تھیں۔ ان کی آنکھیں پرنم تھیں۔ آنسوؤں کے ان دو سمندروں میں خوشیوں کی جل پریاں ناچ رہی تھیں۔

٭٭٭

"Shahzada" A Famous Urdu Short Story By Krishna Chander

کرشن چندر اردو کے نامور افسانہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 23 نومبر 1914ء کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب (موجودہ پاکستان) میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے ۔ کرشن چندر کی تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے ہوا تھا۔ اس وجہ سے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929ء میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ اس کےبعد 1935ء میں انگریزی سے ایم ۔اے۔ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے قانون کی پڑھائی بھی کی تھی۔
کرشن چندر کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی تھے۔ خامہ فرسائی کے زریں دور کی بات کریں توپتہ چلتا ہے کہ کرشن چندر 1955ء سے لے کر 1960ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ ان کی کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘ اور ’ایک گدھے کی سرگذشت‘ کا فی مقبول ہوئے تھے۔
کرشن چندر نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے لکھے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو پردہ سیمیں پر پیش کیا۔
8 مارچ 1977ء کو کرشن چندر کا انتقال ہو گیا تھا۔(بشکریہ ویکیپیڈیا)


اور اب میں یہاں آپ کے سامنے کرشن چندر کا نہایت ہی مشہور افسانہ  " شہزادہ " پیش کرنے جا رہا ہوں اُمید ہے کہ آپ لطف اندوز ہونگے۔ 
شہزادہ
کرشن چندر"
کرشن چندر کا ایک نہایت ہی خوبصورت افسانہ  پیش خدمت ہے ۔ اُمید ہے کہ آپ پسند فرمائیں گے۔
 سدھا خوبصورت تھی نہ بدصورت، بس معمولی سی لڑکی تھی۔ سانولی رنگت، صاف ستھرے ہاتھ پاؤں، مزاج کی ٹھنڈی مگر گھریلو، کھانے پکانے میں ہوشیار، سینے پرونے میں طاق، پڑھنے لکھنے کی شوقین، مگر نہ خوبصورت تھی نہ امیر، نہ چنچل، دل کو لبھانے والی کوئی بات اس میں نہ تھی۔ بس وہ تو ایک بے حد شرمیلی سی اور خاموش طبیعت والی لڑکی تھی…. بچپن ہی سے اکیلی کھیلا کرتی، مٹی کی گڑیاں بناتی اور ان سے باتیں کرتی۔ انہیں تنکوں کی رسوئی میں بٹھا دیتی اور خود اپنے ہاتھ سے کھیلا کرتی۔ جب کوئی دوسری لڑکی اس کے قریب آتی تو گڑیوں سے باتیں کرتے کرتے چپ ہو جاتی۔ جب کوئی شریر بچہ اس کا گھروندا بگاڑ دیتا تو خاموشی سے رونے لگتی۔ رو کر خود ہی چپ ہو جاتی اور تھوڑی دیر کے بعد دوسرا گھروندا بنانے لگتی۔
کالج میں بھی اس کی سہیلیاں اور دوست بہت کم تھے۔ وہ شرمیلی طبیعت ابھی تک اس کے ساتھ چل رہی تھی، جیسے اس کے ماں باپ کی غریبی نے بڑھاوا دے دیا ہو۔ اس کا باپ جیون رام ناتھومل واچ مرچنٹ کے یہاں چاندنی چوک کی دوکان پر تیس سال سے سیلز مین چلا آ رہا تھا۔ اس کی حیثیت ایسی نہ تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو کالج کی تعلیم دے سکے۔ اس پر بھی جو اس نے اپنی بیٹی کو کالج میں بھیجا تھا، محض اس خیال سے کہ شاید اس طریقہ سے اس کی لڑکی کو کوئی اچھا خاوند مل جائے گا۔ کبھی کبھی اس کے دل میں یہ خیال بھی آتا تھا، ممکن ہے کالج کا کوئی اچھا لڑکا ہی اس پر عاشق ہو جائے۔ مگر جب وہ سدھا کی صورت دیکھتا، جھکی ہوئی گردن، سکڑا ہوا سینہ، خاموش نگاہیں …. اور اس کی کم گوئی کا اندازہ کرتا تو ایک آہ بھر کر چپ ہو جاتا اور اپنا حقہ گڑ گڑانے لگتا۔
’’سدھا کے لئے تو کوئی بر گھیر گھار کر ہی لانا ہو گا۔ ‘‘مگر مصیبت یہ ہے کہ اس طرح کے بر بڑا جہیز مانگتے تھے اور اس کی حیثیت ایسی نہ تھی کہ وہ بڑا تو کیا چھوٹا سا بھی جہیز دے سکے۔ ذہن کے بہاؤ میں بہتے بہتے اس نے یہ بھی سوچا کہ آج کل محبت کی شادی بڑی سستی رہتی ہے۔ اب مالک رام کی بیٹی گوپی کو ہی دیکھو، باپ ہیلتھ منسٹری میں تیسرے درجے کا کلرک ہے مگر بیٹی نے ایک لکھ پتی ٹھیکیدار سے شادی کر لی ہے۔ جو اس کے ساتھ کالج میں پڑھتا تھا۔ باپ کوارٹروں میں رہتا ہے۔ مگر لڑکی ائرکنڈیشنڈ موٹرکار میں بیٹھ کر اپنے میکے والوں سے ملنے آتی ہے۔ ہاں مگر گوپی تو بہت خوبصورت ہے اور ہماری سدھا تو بس ایسی ہے جیسے اس کی ماں ….
’’اس کے لئے تو کسی بر کو گھیرنا ہی پڑے گا۔ جس طرح سدھا کی ماں اور اس کے رشتے والوں نے مجھے گھیرا تھا۔ ‘‘
دو تین جگہ سدھا کی ماں نے بات چلائی تھی۔ مگر وہ بات آگے نہ بڑھ سکی، مگر ایک بار تو اس نے بند اتنا مضبوط باندھا کہ لڑکا خود گھر چل کر سدھا کو دیکھنے آ گیا۔ مگر سدھا اسے پسند نہ آئی۔ لڑکا خود بھی کون سا اچھا تھا؟ موا چیچک مارا، ٹھنگنا سا، اس پر ہکلاتا تھا، جامن کا سا رنگ، مگر گوری لڑکی چاہتا تھا اور جہیز میں ایک اسکوٹر مانگتا تھا۔ یہاں سدھا کا باپ ایک سائیکل تک نہ دے سکتا تھا۔ اس لئے معاملہ آگے چلتا بھی تو کیسے چلتا؟
مگر یہ سدھا کے باپ کو معلوم نہ تھا کہ اس بدصورت ٹھنگنے کے انکار پر خود سدھا کتنی خوش ہوئی تھی؟ وہ اور اس کے بھی دو برسوں میں جو دو لڑکے اسے دیکھنے آئے وہ انکار کر کے چلے گئے۔ ان سب کی سدھا کس قدر دل ہی دل میں شکر گزار تھی۔ وہ اوپر سے جتنی ٹھنڈی تھی، اندر سے اتنی ہی لاوا تھی۔ یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ سدھا کے تخیل کی اڑان کتنی اونچی اور وسیع ہے۔ اپنی تنگو تاریک سی دنیا سے باہر نکل کر اس کی کلپنا کیسی کیسی سندر جگہوں پر اسے لے جاتی تھی؟ اس بات کو نہ تو اس کا باپ جیون رام جانتا تھا نہ اس کی ماں مگھی جانتی تھی کہ سدھا کتنی عجیب لڑکی ہے۔ وہ باہر سے معمولی رنگ روپ کی لڑکی تھی، مگر اس نے اپنے دل کے اندر ایک چمکتی ہوئی زندگی چھپا رکھی تھی۔ جس طرح لعل گدڑی میں چھپا رہتا ہے اور یہ تو ہماری روایت ہے کیونکہ اپنے میلے کچیلے بنئے کو دیکھے کر کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس آدمی کے پاس اتنا سونا ہو گا۔ اسی لئے تو وہ شرمیلی تھی۔ وہ اپنا بھید کسی کو کیوں بتائے؟ شاید لوگ اس پر ہنسیں گے اور جو کچھ وہ سوچتی تھی وہ سب کتنا عجیب ہوتا تھا۔ یہ کالج کی سندر سجیلی لڑکیاں اگر اس کے حسن کی موہنی دیکھ لیں تو دھک سے رہ جائیں اور یہ لمبی لمبی کاروں والے دیوتاؤں کی طرح اٹھلاتے ہوئے نوجوان اگر اس کے دل کی راکٹ جہاز دیکھ لیں تو کیا حیرت میں نہ کھو جائیں؟ وہ میری طرف دیکھتے بھی نہیں اور ٹھیک بھی ہے…. گھر کی دھلی ہوئی شلوار اور سلوٹوں والی سیاہ قمیص پہننے والی ایسی لڑکی کو وہ بھلا کیوں دیکھیں گے…. تو…. میں بھی انہیں کیوں بتاؤں گی کہ میں کیا ہوں؟
’’تو نے کیسی لڑکی جنی ہے؟‘‘جیون رام کبھی کبھی مگھی کو ستانے لگتا۔ ‘‘ہر وقت چپ رہتی ہے۔ ہر وقت نگاہ نیچی رکھتی ہے۔ ہر وقت کام میں جٹی رہتی ہے۔ اس کے منہ پر کبھی ہنسی نہیں دیکھی۔ اب کپور صاحب کی لڑکیوں کو دیکھو، ہر وقت پھولوں کی طرح مہکتی رہتی ہیں۔ ہر وقت گھر کو گلزار بنائے رکھتی ہیں، اور ایک سدھا….‘‘جیون رام اخبار پٹک کر چپ ہو جاتا۔
مگھی بارہ آنے سیر والا بھات اور چنے کی پتلی دال اس کے سامنے رکھتی ہوئی کہتی: ’’ان بچیوں کی بات مت کرو۔ ان بچیوں کا باپ سپرنٹنڈنٹ ہے۔ چار سو روپے گھر لاتا ہے۔ میری بچی کے پاس صرف دو قمیص ہیں اور کپور صاحب کی لڑکیاں دن میں دو سوٹ بدلتی ہیں۔ کبھی یہ بھی سوچا ہے….؟‘‘
جیون رام دانت پیس کر چپ ہو جاتا۔ اس کے دل میں بہت سے سوال ابھرتے۔ یہ چاول اتنے موٹے کیوں ہیں؟…. یہ دال اتنی پتلی کیوں ہے؟…. اس کی بیوی ہر وقت نچی کھسوٹی سی کیوں نظر آتی ہے؟…. اس کی بچی ہر وقت چپ کیوں رہتی ہے؟…. لوگ جہیز میں اسکوٹر مانگتے ہیں ….؟ بہت سے سوال پتلی دال کے چنوں کی طرح اس کے دماغ میں پھدکنے لگتے…. مگر جب ان سوالوں کا کوئی جواب نہ ملے تو انہیں پتلی دال کی طرح ہی پی جانا چاہئے۔
ایف۔ اے پاس کرا کے جیون رام نے سدھا کو کالج سے اٹھا لیا: ’’میں افورڈ نہیں کر سکتا۔ ‘‘اس نے اپنے ساتھی طوطا رام سے کہا۔ جو سیوا مل وول کلاتھ مرچنٹ کے یہاں نوکر تھا۔ وہ بڑی آسانی سے یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ کالج میں پڑھانے کی میری حیثیت نہیں۔ مگر حیثیت کا لفظ کتنا صاف اور کھلا ہوا ہے، جیسے کسی نے سر پر سات جوتے مار دیئے ہوں اور ’’افورڈ‘‘ میں کتنی گنجائش ہے۔ ویسے اپنی زبان میں کبھی کبھی بدیسی اور اجنبی الفاظ بھی استعمال کر لینے سے کتنی پردہ پوشی ہو جاتی ہے۔ بالکل ایسے، جیسے گھر میں کوئی اجنبی آ جائے تو گھر کے لڑائی جھگڑے پر اسی وقت پردہ پڑ جاتا ہے….!‘‘تمہاری بیلا تو ابھی کالج میں پڑھتی ہے نا؟‘‘
اس نے طوطا رام سے پوچھا۔
’’ہاں !‘‘طوطا رام من کی خوشی سے چہکتے ہوئے بولا: ’’اگلی سردیوں میں اس کی شادی ہونے والی ہے۔ ‘‘
’’لڑکا ڈھونڈ لیا؟‘‘جیون رام نے مری ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’ہاں !‘‘طوطا رام کوئل کی طرح کوکتے ہوئے بولا: ’’اس نے خود ہی اپنا بر پسند کر لیا، کالج میں لڑکا بڑا امیر ہے۔ ‘‘
جب طوطا رام چلا گیا تو جیون رام نے برا سا منہ بنایا اور طوطا رام کی پتلی آواز کی نقل کرتے ہوئے بولا: ’’اس نے خود ہی اپنا بر پسند کر لیا، چہ؟‘‘پھر وہ زور سے فرش پر تھوکتے ہوئے بولا: ’’حرام زادہ….‘‘
دو سال گزر گئے۔ سدھا اب آصف علی روڈ کی ایک فرم میں ٹائپسٹ تھی۔ وہ پہلے سے زیادہ خاموش، با وقار اور محنتی ہو گئی تھی۔ گھر کی حالت بھی اچھی ہو گئی۔ کیونکہ سدھا گھر میں سو روپے لاتی تھی۔ دفتر کے کام سے فارغ ہو کر وہ اسٹینو کا کام سیکھنے جاتی تھی۔ بی۔ اے کرنے کا ارادہ بھی رکھتی تھی۔
گھر کی حالت ذرا بہتر ہونے پر جیون رام اور مگھی نے سدھا کے بر کے لئے زیادہ اعتماد سے کوشش شروع کر دی تھی۔ وہ سدھا کی تنخواہ میں بہت کم خرچ کرتے تھے اور اسکوٹر کے لئے پیسے جمع کر رہے تھے۔
بہت دنوں کے بعد جیون رام ایک لڑکے کے والدین کو اسکوٹر کا لالچ دے کر گھیرنے میں کامیاب ہوا۔ منگنی کی رقم، بیاہ کا جہیز، جہیز کی نقدی، جہیز کا سونا، ساری ہی ضروری باتیں طے ہو گئیں تو موتی جو لڑکے کا نام تھا اور واقعی شکل و صورت میں موتی ہی کی طرح اجلا اور خوبصورت تھا، اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنے آیا۔
موتی نے گہرے براؤن رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ اس کی سنہری رنگت پر اس کے سیاہ گھنگھریالے بال بے حد خوبصورت معلوم ہوتے تھے اس کی قمیص سے کف کے باہر اس کے ہاتھ بڑے مضبوط اور خوبصورت لگتے تھے اور جب وہ سجی سجائی سدھا کی طرف دیکھ کر مسکرایا تو اندر ہی اندر اس معصوم لڑکی کا دل پگھل گیا اور چائے کی پیالی اس کے ہاتھوں میں بجنے لگی اور بڑی مشکل سے وہ چائے کی پیالی موتی کو پیش کر سکی۔
موتی چائے پی کر اور شکریہ ادا کر کے بڑی سعادت مندی سے رخصت ہو گیا۔ اپنی بہنوں کے ساتھ۔ دوسرے دن اس کی بہنوں نے کہلا بھیجا: ’’لڑکی پسند نہیں۔ ‘‘اس رات سدھا نہ سو سکی۔ رات بھر اس کی آنکھوں میں موتی کا خوبصورت چہرہ اور اس کا با وقار جسم ڈولتا رہا تھا اور رات بھر موتی کے ہاتھوں کا خفیف سا لمس اس کی روح کو گدگداتا رہا۔
’’لڑکی پسند نہیں۔ اونہہ۔ ‘‘مگھی غصے سے ساگ کو کڑاہی میں بھونتے ہوئے بولی۔ ’’اور خود تو بڑا یوسف ہے۔ اپنی رنگت پر بڑا اتراتا ہے۔ مگر اپنی پکوڑا ایسی ناک نہیں دیکھتا؟ اور اپنے حبشیوں ایسے گھنگھریالے بال نہیں دیکھتا۔ اپنی بہنوں کو نہیں دیکھتا؟ ایک تو بھینگی تھی، صفا بھینگی، دوسری پوڈر سرخی کی ماری، صورت کی چوہیا لگتی تھی۔ تیسری کے بال دیکھے تھے تم نے؟ جیسے بنئے کی بوی کے پھوسڑے، اونہہ لڑکی پسند نہیں۔ ‘‘یہ کہہ کر اس نے اتنے زور سے کڑاہی میں کرچھی چلائی، جیسے وہ ساگ کے بجائے اس لڑکے کو بھون رہی ہو۔
سدھا نے محسوس کیا کہ اس کے گھر والوں بلکہ گھر کے باہر محلے والوں اور شاید دفتر والوں کا بھی خیال تھا کہ سدھا کچھ محسوس ہی نہیں کرتی بلکہ دفتر کے کام کے لئے نہایت مناسب لڑکی ہے۔ نہ کسی سے عشق کرے، نہ کسی کو عشق کی ترغیب دے۔ دن بہ دن اس کی آنکھیں میلی، ہونٹ سکڑے ہوئے اور چہرہ دھواں دھواں ہوتا جا رہا تھا۔ اس کی صورت ایسی ٹھنڈی اور ٹھس نکل آئی تھی کہ اسے دیکھ کر کسی برف خانے کا امکان ہونے لگا تھا۔ کلرک آپس میں چہ میگوئیاں کرتے ہوئے کہتے: ’’جو آدمی سدھا سے شادی کرے گا اسے پہاڑ پر جانے کی ضرورت نہ ہو گی۔ ‘‘
اس لئے کہ موتی کے انکار کرنے پر سدھا کے دل پر کیا بیتی یہ تو کسی کو معلوم نہ ہو سکا۔ پہلی بار اس نے زندگی میں کسی کو دل دیا تھا اور یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔ ہوتا بھی کیسے؟ اور کہتی بھی کیا کسی سے؟ کہ جسے میں نے چاہا وہ مجھے دیکھنے آیا تھا اور نا پسند کر کے چلا گیا۔ لوگ تو عشق میں روتے ہیں۔ وہ بے چاری کچھ کہہ بھی نہ سکتی تھی۔
اس دن اس نے دفتر میں اوور ٹائم کیا اور جب اندھیرا خاصا بڑھ گیا تو وہ دفتر سے باہر نکلی اور بھورے رنگ کا پرس جھلاتی ہوئی سامنے آصف علی پارک میں چلی گئی اور ایک بنچ پر تنہا بیٹھ گئی۔ یہ پارک دہلی گیٹ کے سامنے ایک چھوٹا سا خاموش گوشہ تھا۔ چند پیڑ تھے۔ چند بنچیں تھیں۔ چند قطعے تھے گھاس کے…. ان کے چاروں طرف ٹریفک کا شور تھا۔ مگر آج یہاں نسبتاً خاموشی تھی۔ سدھا ہر روز یہاں آتی تھی اور آدھ پون گھنٹہ اکیلے بیٹھ کر تازہ دم ہوتی تھی۔ تھوڑے عرصے کے لئے اپنے خیالوں کی لہروں پر دور تک تیرتی ہوئی نکل جاتی…. اسے تنہائی سے ڈر نہ لگتا تھا۔ تنہائی اس کا واحد سہارا تھی۔ اندھیرے سے اسے ڈر نہ لگتا تھا بلکہ اندھیرا اس کا دوست تھا۔ غنڈوں سے اسے ڈر نہ لگتا تھا۔ جانے اس کی شخصیت میں کونسی ایسی بات تھی کہ غنڈے بھی اسے دور ہی سے سونگھ کر چل دیتے تھے، کترا کر نکل جاتے تھے۔
آج اندھیرا تھا اور پیڑ کے نیچے گہری خاموشی۔ پتھر کا بنچ بھی خوب ٹھنڈا تھا۔ چند منٹ تک سدھا خاموشی سے اس بنچ پر بیٹھی رہی مگر جب اس کی تکان نہ گئی تو وہ اٹھ کر پیڑ کے نیچے چلی گئی اور تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔
یکایک کسی نے اس سے کہا۔ ’’تم یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ اکیلی؟‘‘
سدھا نے آنکھیں کھولیں۔ سامنے موتی مسکرا رہا تھا۔ وہی خوبصورت براؤن سوٹ پہنے، وہی سپید دانتوں والی جگمگاتی ہوئی مسکراہٹ…. اس کے ہاتھ اتنے ہی خوبصورت تھے…. سدھا کے حلق میں کوئی چیز آ کے رکنے لگی۔ وہ بولی نہ سکی۔
موتی اس کے قریب آ کے بیٹھ گیا۔ اتنا قریب کہ اس کی پتلون اس کی ساری سے مس ہو رہی تھی۔ اس نے آہستہ سے پوچھا۔
’’تمہیں میرے انکار پر غصہ آ رہا ہے نا؟‘‘
سدھا نے آہستہ سے سر ہلایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’بہت برا لگ رہا ہے نا؟‘‘
سدھا نے پھر ہاں کے انداز میں آہستہ سے سر ہلا دیا اور آنسو چھلک کر اس کے گالوں پر آ گئے اور وہ رونے لگی….
موتی نے اپنے کوٹ کی جیب سے رومال نکالا اور اس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولا:
’’مگر اس میں رونے رونے کی کیا بات ہے؟ ہر انسان کو اپنی پسند یا ناپسند کا حق ہے۔ بتاؤ حق ہے کہ نہیں؟‘‘
’’مگر تم نے کیا دیکھا تھا میرا؟ جو تم نے مجھے ناپسند کر دیا۔ کیا تم نے میرے ہاتھ کا پھلکا کھایا تھا؟ میرا مٹر پلاؤ چکھا تھا؟ کیا تم نے میرے دل کا درد دیکھا تھا؟ اور وہ بچہ جو تمہیں دیکھتے ہی میری کوکھ میں ہمک کر آ گیا تھا….؟ تم نے میرے چہرے کا صرف سپاٹ پن دیکھا۔ میرے بچے کا حسن کیوں نہیں دیکھا….؟ تم نے وہ بات کیوں نہیں دیکھی جو زندگی بھر تمہارے پاؤں دھوتے۔ اور وہ بٹن جو میں تمہاری قمیص پر کاڑھنے والی تھی، تم میرے جسم کی رنگت سے ڈر گئے۔ تم نے اس سوئٹر کا اجلا رنگ نہ دیکھا جو میں تمہارے لئے بننا چاہتی تھی۔ موتی تم نے میری ہنسی نہیں سنی۔ میرے آنسو نہیں دیکھے۔ میری انگلیوں کے لمس کو اپنے خوبصورت بالوں میں محسوس نہیں کیا۔ میرے کنوارے جسم کو اپنے ہاتھوں میں لرزتے ہوئے نہیں دیکھا تو پھر تم نے کس طرح مجھے ناپسند کر دیا تھا؟‘‘
ارے…. اتنی لمبی تقریر وہ کیسے کر گئی؟ اتنا سب کچھ وہ کیسے کہہ گئی؟ بس اسے اتنا معلوم تھا کہ وہ رو رہی تھی اور کہتی جا رہی تھی اور اس کا سر موتی کے کندھے پر تھا اور موتی اپنی غلطی پر نادم اس کے شانوں کو ہولے ہولے تھپک رہا تھا۔
اس دن وہ بہت دیر سے گھر پہنچی اور جب اس کی ماں مگھی نے اس سے پوچھا تو اس نے کمال لا پروائی سے کہہ دیا: ’’دفتر میں دیر ہو گئی۔ ‘‘پھر پرس کو زور سے جھلا کر پلنگ پر پھینک دیا اور اس اعتماد سے کھانا مانگنے لگی کہ اس کی ماں چونک گئی۔ اس کا باپ چونک گیا۔ آج سدھا کی روئی ہوئی آنکھوں کی تہ میں خوشی کی ایک ہلکی سے لکیر تھی۔ جیسے گہرے بادلوں میں کبھی کبھی بجلی کوند جاتی ہے۔
مگھی نے اپنے ہونٹ چبا کر چالاک نگاہوں سے اپنے خاوند کی طرف اس طرح دیکھا، جیسے اس نے بیٹی کا راز بھانپ لیا ہو…. جیون رام نے بھی ایک پل کے لئے مسرور نگاہوں سے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا۔ پھر اپنی تھالی کی طرف متوجہ ہو گیا۔
ضرور کوئی بات ہے…. اور سدھا چونکہ عورت ہے، اس لئے اس بات کی تہہ میں ضرور کوئی مرد ہے۔ ایسا دونوں میاں بیوی نے اسی لمحہ سوچ لیا۔ آٹھ دس روز کے بعد اس شبہ کو اور تقویت پہنچی۔ جب ایک لڑکا اپنی ماں کے ساتھ سدھا کو دیکھنے کے لئے آیا، اس لڑکے کی ماں مگھی کی بچپن کی سہیلی تھی اور کیسے کیسے جتن اور کس کس طرح کے واسطے دے کر مگھی نے اسے شیشے میں اتارا تھا۔ یہ صرف مگھی ہی جانتی تھی۔ اس لئے جب اس موقع پر لڑکے کی بجائے سدھا نے شادی سے انکار کر دیا تو پہلے تو مگھی اچنبھے میں رہ گئی۔ پھر اس کے دل میں وہ شبہ تقویت پکڑتا چلا گیا…. ضرور کوئی ہے….!!
وہ چپکے چپکے اپنی بیٹی کے لئے جہیز کا سامان تیار کرنے لگی اور جیون رام حقہ پیتے پیتے اس دن کا انتظار کرنے لگا، جب سدھا چپکے سے آ کر مگھی سے سب بات کہہ دے گی اور بڈھا جیون رام پہلے تو لال پیلی آنکھیں نکال کر سدھا کو گھورے گا۔ ’’تیری یہ ہمت! کہ تو نے ہم سے بالا بالا ہی اپنے لئے بر پسند کر لیا؟ نکال دوں گا گھر سے اور چٹیا کاٹ کر پھینک دوں گا، ہمارے خاندان کی ناک کٹانے والی…. پھر وہ مگھی کے سمجھانے بجھانے پر خود ہی نرم پڑ جائے گا اور آخر میں حقہ گڑگڑاتے ہوئے پوچھے گا۔ ’’مگر کون ہے وہ….؟‘‘
اور اب کوئی بھی ہو، وہ سدھا کے بتاتے ہی جلد سے جلد اس کے ہاتھ پیلے کر دے گا۔ پچیس برس کی جوان لڑکی کو گھر میں رکھنا ٹھیک نہیں۔
مگر دن گزر گئے۔ مہینے گزر گئے۔ سال گزر گئے۔ مگر سدھا نے کچھ نہ بتایا۔ اس کی ماں انتظار کرتی رہی، مگر وہ جنم جلی کبھی کچھ منہ سے نہ پھوٹی۔ تھک ہار کے اس کی ماں نے پھر دو تین بر ڈھونڈے۔ مگر سدھا نے صاف انکار کر دیا۔ آخری بر، جو اس کے باپ نے ڈھونڈا، وہ ایک رنڈوے حلوائی کا تھا، جس کی عمر چالیس سے تجاوز کر چکی تھی۔
اس روز شفق کے ڈھلتے ہوئے سایوں میں گلابی انگلیوں والی مہکتی ہوئی شام میں سدھا نے موتی کو بتایا۔ ’’وہ لوگ آج میرے لئے ایک بڈھا حلوائی ڈھونڈ کے لائے تھے۔ ‘‘
’’پھر؟‘‘موتی نے ہنس کر پوچھا۔
’’میں نے صاف انکار کر دیا۔ ‘‘
’’تو نے انکار کیوں کر دیا پگلی۔ شادی کر لیتی تو زندگی بھر آرام سے بیٹھی، مٹھائی کھاتی۔ ‘‘
’’اور تمہیں چھوڑ دیتی؟‘‘سدھا نے پیار بھرے غصے سے موتی کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’میں نے بھی تو تم سے شادی نہیں کی؟‘‘موتی نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔
’’تو کیا ہوا؟‘‘سدھا اس کے گال کو اپنے گال سے سہلاتی ہوئی بولی: ’’تم میرے پاس تو ہو، شادی سے بھی زیادہ میرے پاس…. ہر وقت میری مٹھی میں گویا….‘‘
موتی ہنس کر بولا: ’’ہاں یہ تو صحیح ہے، میں بالکل تمہاری مٹھی میں ہوں، جب چالو بلا لو۔ ‘‘
’’شروع میں تو تم ایسے نہ تھے۔ ‘‘سدھا، موتی کی طرف چنچل نگاہوں سے دیکھ کر بولی۔ ’’شروع میں تو تم بڑی مشکل سے میرے پاس آیا کرتی تھے….‘‘
’’شروع میں ایسا پیار بھی تو نہ تھا اور کسی کے دل کو سمجھتے ہوئے دیر بھی تو لگتی ہے….‘‘موتی نے سدھا کے کانوں میں سرگوشی کی اور سدھا کی آنکھیں شدت احساس سے بند ہونے لگیں اور تھوڑی دیر کے بعد اس نے موتی کی تیز تیز سانسوں کی آنچ اپنے چہرے پر محسوس کی اور اپنی گردن اور رخسار پر اس کے برستے ہوئے محسوس کئے….!
’’کل کہاں ملو گے؟‘‘
’’جہاں تم کہو…. لورز لین میں؟‘‘
’’اونہوں !‘‘
’’کوٹلے میں گھوڑوں کی نمائش ہو رہے ہے۔ ‘‘
’’میں کیا گھوڑے خرید کر پالوں گی؟‘‘سدھا ہنسی۔
’’اولڈ ہال میں ادیبوں کی نمائش ہے۔ ‘‘
’’نا بابا!‘‘سدھانے کانوں پر ہاتھ رکھے۔
موتی خاموش ہو گیا۔
پھر سدھا خود ہی بولی: ’’کل پکچر دیکھیں گے، بسنت سینما میں بہت اچھی پکچر لگی ہے، میں دو ٹکٹ خرید رکھوں گی۔ تم ٹھیک پونے چھ بجے وہاں پہنچ جانا۔ ‘‘
’’ٹکٹ میں خرید لوں گا۔ ‘‘
’’نہیں یہ پکچر تو میں دکھاؤں گی، تم کوئی دوسری دکھا دینا۔ میں کب منع کرتی ہوں …. مگر بھولنا نہیں، کل شام پونے چھ بجے بسنت سینما کے باہر!‘‘
بسنت سینما کے باہر بہت بھیڑ تھی۔ سدھانے دو ٹکٹ خرید لئے اور اب وہ موتی کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے احتیاطاً آدھا پاؤ چلغوزے اور ایک چھٹانک کشمش بھی لے لی۔ سینما دیکھتے دیکھتے کھانے کا اسے ہوکا سا تھا۔
پونے چھ ہو گئے۔ چھ ہو گئے۔ پچھلے شو کے چھوٹنے کے بعد لوگ چلے گئے۔ نئے لوگ شو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ موتی نہیں آیا۔ چاروں طرف روشنیاں تھیں۔ لوگوں کی بھیڑ تھی۔ خوانچے والوں کی بلند آوازیں تھی۔ تانگے، موٹروں اور رکشاؤں کا ہجوم تھا اور موتی ہجوم کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اب وہ اس کی طبیعت سمجھ گئی تھی۔ اسے خاموشی پسند تھی۔ اندھیرا پسند تھا۔ تنہائی پسند تھی…. موتی بے حد حساس اور نفاست پسند تھا۔
سوا چھ کے قریب وہ سینما ہال میں جا بیٹھی۔ اس نے اپنے ساتھ والی سیٹ پر اپنا رومال رکھ دیا۔ چلغوزوں اور کشمش کے لفافے بھی۔ ہولے ہولے ہال بھر گیا۔ مگر موتی نہیں آیا۔ جب ہال کی روشنیاں گل ہو گئیں اور پکچر شروع ہو گئی تو سدھا نے موتی کا ہاتھ اپنے ہاتھ پر محسوس کیا۔ وہ اندھیرے میں چپکے سے آ کر ساتھی والی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔ سدھا نے اس کے ہاتھ کو دباتے ہوئے کہا۔
’’بڑی راہ دکھاتے ہو۔ ‘‘
’’سوری!‘‘موتی کے لہجے میں بے حد ملامت تھی۔
’’میں تمہارے لئے چلغوزے اور کشمش لائی ہوں کھاؤ….‘‘
موتی نے کشمش کے چند دانے اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لئے اور سدھا مسرت کا گہرا سانس لے کر تصویر دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔ اب باتیں کرنے کا لمحہ نہ تھا۔ وہ محسوس کر سکتی تھی کہ موتی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس کے ساتھ کرسی پر بیٹھا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ اپنا سر اس کے شانے پر رکھ دیتی۔ موتی سرگوشی میں کہتا۔
’’میرے کندھے پر سر رکھ کر دیکھنے سے تمہیں کیا نظر آتا ہے؟ تصویر تو نظر آتی نہ ہو گی؟‘‘
’’وہ تصویر نظر آتی ہے جو اس ہال میں بیٹھا ہوا کوئی آدمی نہیں دیکھ سکتا۔ ‘‘سدھا نے بڑی گہری مسرت سے کہا۔
آہستہ آہستہ ہر شخص نے تبدیلی محسوس کی۔ سدھا کی میلی میلی آنکھیں اجلی ہوتی گئیں۔ سینے کا ابھار واضح ہونے لگا۔ کمر لچکنے لگی اور چال میں کولہوں کا مدور بہاؤ شامل ہوتا گیا۔ وہ دن بدن حسینو دل کش ہوتی گئی۔ اب اس کے کپڑے انتہائی صاف ستھرے ہوتے تھے۔ ہوتے تھے کم قیمت کے مگر بے حد عمدہ سلے ہوئے ہوتے تھے۔ سدھا کو یہ توفیق نہ تھی کہ وہ کسی اچھے درزی کے پاس جا سکے مگر خود ہی اس نے درزی کا کام سیکھ لیا تھا اور بہت کم لڑکیاں کٹائی اور نئے لباس کی تراش اور ڈیزائن میں اس کا مقابلہ کر سکتی تھیں۔ مگر اس نے کبھی کسی کو نہیں بتایا کہ وہ یہ کپڑے خود اپنے ہاتھ سے کاٹ کر تیار کرتی ہے۔ اس کے دفتر کی جب کوئی دوسری لڑکی اس کے لباس کی تعریف کرتی تو سدھا جھٹ کسی مہنگے درزی کا نام بتا دیتی۔ جہاں صرف امیر ترین فیشن ایبل عورتوں کے کپڑے تیار ہوتے تھے اور اس کے دفتر کی لڑکیاں جل کر خاک ہو جاتیں اور سدھا سے رشک اور حسد کے ملے جلے انداز میں پوچھتیں۔
’’کیسا ہے وہ تیرا؟‘‘
’’گورا رنگ ہے، بال گھنگھریالے ہیں۔ ہنستا ہے تو موتی جھڑتے ہیں۔ ‘‘سدھا جواب دیتی۔
’’کیا تنخواہ لیتا ہے؟‘‘
’’بارہ سو۔ ‘‘
’’بارہ سو؟‘‘لڑکیاں چیخ کر پوچھتیں۔ ’’بارہ سو تو ہماری فرم کے مینجر کی تنخواہ ہے۔ ‘‘
’’وہ بھی ایک فرم میں مینجر ہے۔ ‘‘سدھا جواب دیتی۔
’’اری ہمیں دکھائے گی نہیں؟‘‘بس ایک بار دکھا دے…. ہم دیکھ تو لیں کیسا ہے تمہارا وہ!‘‘
’’دکھا بھی دوں گی، کہو تو دفتر میں بلا کے دکھا دوں؟‘‘
یہ تو اس نے یونہی کہہ دیا تھا۔ ورنہ سدھا کہاں موتی کو دکھانے والی تھی۔ وہ مر جاتی مگر اپنے موتی کو نہ دکھاتی۔ ان لونڈیوں کا کیا بھروسہ….؟ مگر سدھا نے دفتر میں بلانے کی دھمکی اس کامل اعتماد سے دے دی تھی کہ اس سے آگے پوچھنے کی ہمت لڑکیوں کو نہ ہوئی اور وہ جل کر خاموش رہ گئیں۔
سدھا کا بوڑھا باپ کڑھ کڑھ کر مر گیا۔ کیوں کہ سدھا شادی نہ کرتی تھی اور محلے والے طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرتے تھے اور سدھا کا باپ ا پنی بیٹی کو کچھ نہ کہہ سکتا تھا۔ کیوں کہ سدھا جوان اور بالغ تھی اور خود مختار بھی تھی۔ اب وہ گھر میں دو سو روپے لاتی…. سدھا کا باپ مر گیا اور اس کے مرنے کے بعد اگلے چند سالوں میں سدھا کے بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں اور وہ لوگ اپنی اپنی بیویاں لے کر اپنی اپنی ملازمتوں کے ٹھکانوں پر چلے گئے۔ پھر اس کی چھوٹی بہن دجے کی بھی شادی ہو گئی۔ پھر اس کی ماں بھی اپنی بڑی بیٹی کے کنوارے پنے کے غم میں سلگ سلگ کر مر گئی اور سدھا اس غم میں اکیلی رہ گئی۔ چند ماہ کے بعد اس نے وہ گھر بھی چھوڑ دیا اور سول لائنز میں ایک عمدہ مکان کی دوسری منزل میں دو کمرے لے کر پے انگ گیسٹ (Paying Guest) کے طور پر رہنے لگی۔ اس کے رہنے کے حصے کا دروازہ الگ سے باہر نکلتا تھا اور اب وہ اپنی نقلو حرکت میں مکمل خودمختار تھی۔ اب وہ پینتیس برس کی ہو چکی تھی مگر مشکل سے تیس برس کی معلوم ہوتی تھی۔ اس کے ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی اور آنکھوں میں خوشیوں کے سائے ناچتے رہتے۔ وہ پہلے سے زیادہ سنجیدہ اور با وقار ہو گئی تھی۔ وہ اسٹینو بھی ہو گئی تھی۔ اس نے بی۔ اے بھی کر لیا تھا۔ اس کی تنخواہ بھی بڑھ گئی تھی اور کتابیں پڑھنے کا شوق بھی….
اب وہ خوش حال اور آرام دہ اور سکون آمیز زندگی بسر کر رہی تھی۔ کئی سال سے وہ اپنی مانگ میں سیندور بھر رہی تھی اور ماتھے پر سہاگ کی بندیا سجاتی تھی اور لوگوں کو یہ تو معلوم نہ تھا کہ اس کی شادی کہاں ہوئی ہے؟ اور کون اس کا خاوند ہے؟ مگر لوگ اتنا جانتے تھے کہ کوئی اس کا ہے، جس کے ساتھ وہ اپنی شامیں گزارتی ہے۔ بلکہ لوگ تو یہاں تک کہتے سنے گئے کہ جو کوئی بھی وہ ہے، اس کی اپنی کچھ وجوہ ہیں، جن کی وجہ سے ان دونوں کی شادی نہیں ہوئی۔ مگر وہ دونوں ہر شام کی تنہائیوں میں ملتے ہیں اور جب دنیا سو جاتی ہے اور جب کوئی کسی کو نہیں دیکھتا۔ جب چاروں طرف نیند غالب آ جاتی ہے ان غنودگی سے لبریز لمحوں میں کوئی سدھا کے یہاں آتا ہے، ہولے سے دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور خاموشی سے اندر آ جاتا ہے…. لوگوں نے اسے دیکھا نہیں تھا۔ مگر لوگوں کا خیال یہی تھا۔ وہ سدھا سے کچھ کہتے نہیں تھے۔ کیوں کہ سدھا اب ایک سنجیدہ اور با وقار عورت بن چکی تھی اور جس کے ماتھے پر سیندور کا یہ بڑا ٹیکا جگمگاتا ہو، اسے کوئی کیا کہہ سکتا ہے؟
وہ شام سدھا کی چالیسویں سالگرہ کی شام تھی اور وہ کئی وجوہ سے سدھا کو کبھی نہیں بھولتی۔ سدھا، موتی کو متھرا روڈ کے جاپانی گارڈن میں لے گئی تھی۔ جس پر باغ کی بجائے کسی خوبصورت منظر کا شبہ ہوتا تھا۔ شفق نے چوٹ کھائی ہوئی عورت کی طرح اپنا منہ چھپا لیا تھا اور رات کی سانولی زلفیں افق پر بکھیر دی تھیں۔ ہولے ہولے تارے نمودار ہونے لگے۔ آج سدھا بہت خاموش تھی۔ موتی بھی چپ چاپ سا تھا….
وہ اب بھی اسی طرح خوبصورت تھا۔ جیسے جوانی میں تھا۔ اب بھی وہ ہر روز اسی براؤن سوٹ میں آ کر سدھا سے ملتا تھا کہ سدھا کا حکم یہی تھا۔ اسے دیکھ کر یہ گمان ہوتا تھا کہ موتی پر زندگی کے بہاؤ نے اور وقت کے گھاؤ نے زیادہ نشان نہیں چھوڑے۔ صرف کنپٹیوں پر سفید بال آ گئے ہیں جو اس صورت کو اور بھی با وقار اور وجیہہ بناتے تھے اور وہ ایک چھڑی لے کر چلتا تھا جو اس کی پچاسویں سالگرہ پر خود سدھا نے اسے تحفے میں دی تھی۔ ورنہ اس کے علاوہ اس کی صورت شکل میں، کردار اور گفتار میں کسی طرح کا فرق نہ آیا تھا۔ وہ پہلے ہی کی طرح اتنا حسین، دل کش اور دل نواز تھا کہ اسے دیکھتے ہی سدھا کے دل میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگتی تھیں۔ اتنا وقت گزر جانے کے بعد آج بھی اسے دیکھ کر سدھا کا دل اتنے زور سے دھک دھک کرنے لگا تھا جتنا کہ پہلے روز….
موتی نے آہستہ سے پوچھا: ’’تم نے مجھ سے شادی کیوں نہیں کی؟‘‘
’’ایک دفعہ انکار کرنے کے بعد….؟‘‘سدھا نے ہولے سے کہا: ’’تم سے شادی نہیں کی جا سکتی تھی صرف محبت کی جا سکتی تھی…. اب تم یہ کیسے جان سکو گے کہ جس دن تم نے انکار کیا تھا، اسی دن سے تم میرے ہو گئے تھے…. اتنا جاننے کے لئے عورت کا دل چاہئے۔ ‘‘
موتی خاموش رہا۔ بہت دیر کے بعد بولا: ’’آج تو تم چالیس سال کی ہو چکی ہو، کیا تمہیں افسوس نہیں ہوتا کہ تم نے مجھ سے شادی نہیں کی….!‘‘
یہ سن کر سدھا بھی خاموش ہو گئی۔ اتنی دیر خاموشی رہی کہ موتی کو گمان گزرا کہ کہیں سدھا اندر ہی اندر رو رہی ہے۔
’’سدھا۔ ‘‘اس نے آہستہ سے اس کا شانہ ہلایا۔
’’میں سوچ رہی تھی۔ ‘‘سدھا ہولے سے بولی…. ’’تم سے شادی نہ کر کے میں نے کیا کھویا ہے…. کیا کوئی شام ایسی تھی؟ جو میں نے تمہارے ساتھ نہ گزاری ہو۔ سوچو تو کہاں کہاں ہم نہیں گئے؟ جہاں جہاں میں نے تمہیں بلایا، کیا تم وہاں نہیں پہنچے؟‘‘اور جس وقت بھی بلایا کیا اسی وقت سب کام چھوڑ کر تم نہیں آئے؟ اگر شادی کا نام رفاقت ہے تو وہ مجھے حاصل ہے….‘‘
’’پھر یہ بھی سوچو کہ اس طویل رفاقت میں میرا تمہارا ایک بار بھی جھگڑا نہیں ہوا۔ میں نے تمہیں ہمیشہ مہربان اور مسکراتے ہوئے پایا۔ سالہا سال جب میرے ہاتھوں کو تمہارے ہاتھوں کی ضرورت ہوئی، ان کے لمس کی گرمی، میں نے اپنے جسم کے روئیں روئیں میں محسوس کی…. تمہارے پھول میری زلفوں میں رہے۔ تمہارے بوسے میرے ہونٹوں پر۔ تمہاری وفا میرے دل میں …. کیا کوئی عورت محبت میں اس سے زیادہ پا سکتی ہے؟‘‘
سدھا نے ایک گہری مسرت سے اپنے آپ کو موتی کے بازوؤں میں ڈھیلا چھوڑ دیا اور پھر اسے محسوس ہوا کہ موتی کے دو بازو نہیں بلکہ چار بازو ہیں بلکہ شاید چھ بازو ہیں، آٹھ بازو ہیں۔ اور وہ اپنے جسم و جاں کے رگ و ریشے میں اس کے بازوؤں کو محسوس کر رہی تھی، جو اسے بھنچ کر اپنے سینے سے لگا رہے تھے اور سدھا نے اپنے آپ کو ان کے بازوؤں کے سپرد کر دیا اور اندر ہی اندر اس طرح کھلتی چلی گئی، جیسے چاندنی کے لمس سے کلی کھل کر پھول بن جاتی ہے۔ مدماتے تاروں کے جھرمٹ میں، سبز جھالروں والے پیڑوں کی اوٹ سے چاند ابھر آیا تھا اور اب چاند اس کے بالوں میں تھا۔ اس کی آنکھوں میں تھا، اس کے ہونٹوں میں تھا۔ اس کے دل میں تھا اور لہر در لہر اس کی جوئے خوں میں رواں تھا۔ ’’ہائے میرے موتی چور…. میرے موتی چور…. میرے میٹھے لڈو…. میں تو مر گئی تیرے لئے….‘‘
تھوڑی دیر کے بعد جب سدھا نے آنکھیں کھولیں تو اس کا پر مسرت غنودگی آمیز چہرہ بتا رہا تھا کہ اس سے ابھی ابھی محبت کی گئی ہے….!
وہ شام، وہ رات سدھا کو کبھی نہیں بھولے گی۔ کیوں کہ وہ رات مکمل تھی اور ان دونوں کی زندگیاں مکمل تھیں۔ جیسے وقت اور عمر، چاند اور آرزو سب ایک ساتھ ایک دائرے میں مکمل ہو جائیں اور جذبے کی ایک بوند بھی چھلک کر باہر جانے کی ضرورت محسوس نہ کرے۔ ایسے لمحے کب کسی کی زندگی میں آتے ہیں؟ اور جب آتے ہیں تو اس شدت سے اپنا تاثر چھوڑ جاتے ہیں کہ انسان محسوس کرتا ہے…. کہ شاید میں اب تک جیا ہی اس لمحے کے لئے تھا۔ شاید کچھ اسی طرح سدھا نے اس لمحہ میں محسوس کیا اور پھر کبھی اس طرح محسوس نہ کیا، کیوں کہ اس واقعہ کے چند دن بعد، اس کے دفتر کا مینجر تبدیل ہو گیا اور جو مینجر اس کی جگہ آیا۔ اسے سدھا سخت ناپسند کرنے لگی تھی۔ ایک تو وہ بڑا بدصورت تھا۔ کسی زمانے میں اس کا رنگ گورا ضرور رہا ہو گا۔ مگر اب تو پرانے تانبے کا سا تھا اور موٹی ناک پر مسلسل شراب نوشی سے نیلی وریدوں کا جال سا پھیلا تھا۔ اور سدھا کو اپنے نئے مینجر کی ناک دیکھ کر ہمیشہ گمان ہوتا کہ یہ ناک نہیں ایک انجیر ہے جو ابھی باتیں کرتے کرتے اس کے سامنے پھٹ جائے گا۔ اس کے گال جبڑوں پر لٹک گئے تھے۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ گڑھے پڑ گئے تھے۔ سر کے بال اڑ گئے تھے اور جب وہ بات کرتا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مینڈک کسی کائی بھرے تالاب کے اندر سے بول رہا ہو۔ عجیب سی گھن آتی تھی سدھا کو اس سے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ اب دفتر میں اتنے سال سے کام کرتے کرتے وہ ہیڈ اسٹینو بن چکی تھی اور اسے دن بھر مینجر کے کمرے میں رہنا پڑتا تھا اور اس سے اسے انتہائی کوفت ہوتی تھی۔ لیکن اس سے زیادہ کوفت اسے یہ سوچ کر ہوتی تھی کہ اس نے اس بدصورت انسان کو اس سے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ جیسے یہ صورت جانی پہچانی ہو۔ مگر کہاں؟ ذہن اور حافظے پر زور دینے سے بھی اس کی یاد نہ آتی تھی۔
’’اونہہ دیکھا ہو گا، اس مرگھلے کو کناٹ پیلس میں چکر کاٹتے ہوئے کہیں۔ ‘‘سدھا اپنے آپ کو سمجھاتے ہوئے کہتی مگر پھر کبھی وہی مینجر کسی فائل کو خود اٹھا کر سدھا کی میز پر رکھتے ہوئے، اپنے ہاتھوں سے ایسی جنبش کرتا کہ سدھا کا ذہن بے چین ہو جاتا اور وہ سوچنے لگتی۔ کون تھا وہ؟ کس سے اس کی یہ حرکت ملتی ہے۔ کیا میرے مرحوم باپ سے؟ میرے کسی بھائی سے؟ جیسے یہ حرکت مجھے کچھ…. یاد دلاتی ہو….؟ مگر کیا….؟ غور کرنے پر بھی وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکتی…. اور پھر اپنا کام کرنے لگتی۔ مگر دن بھر اس کے دل میں ایک خلش سی ہوتی رہتی….!
پہلی تاریخ کو جب تنخواہ بٹ چکی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو نئے مینجر نے سدھا کو کسی کام سے روک لیا اور اسے اپنی میز کے سامنے کرسی پر بٹھا لیا۔ پھر اس نے ایک کیبنٹ کھول کر اس میں سے ایک گلاس نکالا اور وہسکی کی بوتل اور سوڈا…. اور پہلا پیگ وہ غٹا غٹ چڑھا گیا۔ سدھا اسے حیرت سے دیکھنے لگی اور غصے سے اٹھ کر جانے لگی کہ مینجر نے نہایت نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جانے سے باز رکھا اور بولا۔
’’آج جب تمہاری ترقی کی فائل میرے سامنے آئے تو مجھے معلوم ہوا کہ اس دفتر میں سب سے پرانی ملازم تم ہو، یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ ‘‘
سدھا چپ رہی۔
’’تمہارا نام سدھا ہے نا….؟‘‘مینجر بڑی بے چینی سے بولا۔
سدھا بڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اتنے دن سے میرے ساتھ کام کر رہا ہے، کیا یہ میرا نام بھی نہیں جانتا؟ آخر اسے کیا ہوا ہے؟
’’میرا مطلب ہے….‘‘مینجر دوسرے پیگ کا ایک بڑا گھونٹ پی کر بولا: ’’تم وہی سدھا ہو نا، جس کے باپ کا نام جیون رام ہے….؟‘‘
سدھا بڑی ترش روئی سے بولی: ’’ہاں میرے باپ کا نام بھی فائل میں لکھا گیا ہے، پھر مجھ سے پوچھنے کی ضرورت کیا ہے؟‘‘وہ تقریباً اٹھتے اٹھتے بولی۔
’’بیٹھو بیٹھو….‘‘مینجر نے پھر اس کی منت کرتے ہوئے کہا۔
’’تم نے مجھے پہچانا نہیں؟‘‘وہ اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔
’’نہیں ….!‘‘وہ غصے سے بولی۔
’’تم اپنے باپ کے ساتھ محلہ جنداں میں رہتی تھیں نا؟‘‘
’’ہاں !‘‘
’’میں ایک روز تمہارے گھر آیا تھا۔ تمہیں دیکھا بھی تھا۔ تم سے باتیں بھی کی تھیں۔ ‘‘بڈھے مینجر نے سدھا سے کہا۔ ’’اب تم ایک خوبصورت عورت بن چکی ہو، مگر جب تم ایسی نہ تھیں۔ جب تم ایک معمولی سی لڑکی تھیں اور میں نے تمہیں دیکھا تھا اور تم سے باتیں بھی کی تھیں۔ ‘‘
’’کب….؟ کب….؟‘‘سدھا بے چینی سے بولی۔
بڈھا مینجر دیر تک سدھا کو دیکھتا رہا۔ آخر آہستہ سے بولا:
’’میں موتی ہوں ….‘‘
سدھا سناٹے میں آ گئی۔
’’میں بڑا…. میں بڑا بدنصیب تھا جو تم سے شادی نہ کی…. میں تمہیں اچھی طرح سے دیکھ نہ سکا، سمجھ نہ سکا۔ ان چند لمحوں میں کوئی کیا جان سکتا ہے۔ کیوں کہ ایک صورت جلد کے اندر بھی تو پوشیدہ رہتی ہے…. میں نوجوان تھا۔ دولت اور گورے رنگ کا لالچی۔ جو بیوی مجھے ملی، وہ دولت بھی لائی تھی اور سفید چمڑا بھی اور اس کے ساتھ ایک مغرور، بدمزاج ظالم اور بے وفا طبیعت بھی لائی تھی۔ چند سالوں ہی میں میرے پانچ بچے ہو گئے۔ ان میں سے کتنے میرے تھے؟ میں کہہ نہیں سکتا۔ مگر لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے تھے اور میں سنتا تھا اور پیتا تھا اور دوسری عورتوں کے پاس جاتا تھا…. پھر زہر…. بیماری کا، اور شراب کا، اور ناکامی کا، اور بے مہری کا، میری رگ رگ میں پھیل گیا اور میں وقت سے پہلے بوڑھا ہو گیا اور بجھ گیا…. اب وہ مر چکی ہے۔ اس لئے میں اسے کچھ نہ کہوں گا اور اسے کہوں بھی کیا….؟ قصور تو میرا ہے۔ میری ان آنکھوں کا جو تمہیں پہچان نہ سکیں …. میری آنکھوں نے ایک ہیرا دیکھا اور پتھر سمجھ کر پھینک دیا…. کیا تم مجھے کسی طرح معاف نہیں کر سکتیں؟ کیا تم مجھ سے شادی نہیں کر سکتیں؟ میری عمر زیادہ نہیں ہے۔ مجھے تو محبت بھی نہیں ملی…. جس کے لئے میں ساری عمر ترستا رہا۔ ‘‘
وہ کہے جا رہا تھا اور وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی اور اس کی جی چاہتا تھا کہ وہ اس سے کہے: ’’اب تم آئے ہو؟بوڑھے بدصورت اور گنجے ہو کر، خوفناک بیماریوں کا شکار…. اب تم مجھ سے شادی کے لئے کہہ رہے ہو؟ مگر میں نے تو اپنی ساری زندگی تمہیں دے دی اور تمہیں معلوم تک نہ ہوا کہ میں نے اپنی ساری جوانی تمہارے تصور میں کھو دی اور زندگی کی ہر بہار تمہارے خیال میں گنوا دی اور شباب کی ہر مچلتی ہوئی آرزو تمہاری ایک نگاہ کے لئے لٹا دی۔ زندگی بھر میں سڑکوں پر اکیلی چلتی رہی، تمہارے سائے کے ساتھ۔ اندھیرے پارکوں میں بیٹھی رہی تمہارے تصور کے ساتھ۔ میں نے خود اپنے ہاتھ سے خرچ کر کے تم سے ساڑھیوں کے تحفے لئے۔ تمہارا زیور پہنا، اپنی محنت کا خون کر کے سینما دیکھا اور اپنے ساتھ کی سیٹ خالی رکھ کر۔ میرا باپ مر گیا۔ میری ماں مر گئی اور میری کوکھ کے بچے مجھے دور ہی دور سے بلاتے رہے اور میں کسی کے پاس نہ گئی۔ تمہارے خیال کو حرز جاں بنائے ہوئے، اپنے کنوار پن کے چالیس سال، آنکھیں، کان اور ہونٹ بند کر کے تمہاری آرزو میں بتا دیئے تھے…. میں کتنی خوش تھی؟ کتنی مگن تھی؟ میں نے تو تم سے کبھی کچھ نہ مانگا۔ نہ شادی کا پھیرا، نہ سہاگ کی رات، نہ بچے کا تبسم! بس…. صرف ایک تصور، ایک جھلک، ایک عکس رخ یار ہی تم سے مستعار لیا تھا اور تم آج اسے بھی جہنم کی چتا میں جلانے کے لئے میرے شہر میں چلے آئے ہو….؟‘‘
مگر سدھا، موتی سے کچھ نہ کہہ سکی۔ وہ میز پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور جب موتی نے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا تو وہ غصے سے جھنجھلا گئی اور اس کا ہاتھ جھٹک کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ باہر نکل کر سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی۔ موتی اسے بلاتا ہی رہا۔ وہ بھاگ کر سڑک پر جا پہنچی۔ سڑک پر اندھیرا تھا مگر پھر بھی بجلی کی بتیوں کی اتنی روشنی تھی کہ لوگ اس کے آنسو دیکھ لیتے مگر اس نے کسی کی پرواہ نہ کی اور وہ روتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ آصف علی پارک کے قریب پہنچ کر وہ ٹھٹکی۔ ایک لمحے کے لئے اسے خیال آیا کہ وہ پارک کے اندر جا کر، کسی پیڑ کے تنے سے سر ٹیک کر بیٹھ جائے۔ مگر پھر اس نے سوچا: ’’بے سود ہے، سب بے سود ہے۔ میرے خیالوں کا شہزادہ اب وہاں نہ آئے گا۔ اب وہ کبھی میرے پاس نہ آئے گا۔ ‘‘
جب وہ یہ کچھ سوچ رہی تھی تو اس نے اپنی مانگ کا سیندور مٹا ڈالا اور سہاگ بندیا کھرچ لی اور پارک کی ریلنگ پر اپنی ساری چوڑیاں توڑ ڈالیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ اب وہ ساری عمر کے لئے بیوہ ہو چکی ہے۔

٭٭٭

"Tai Aceri" A Famous Urdu Short Story By Krishna Chander

کرشن چندر اردو کے نامور افسانہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 23 نومبر 1914ء کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب (موجودہ پاکستان) میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے ۔ کرشن چندر کی تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے ہوا تھا۔ اس وجہ سے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929ء میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ اس کےبعد 1935ء میں انگریزی سے ایم ۔اے۔ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے قانون کی پڑھائی بھی کی تھی۔
کرشن چندر کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی تھے۔ خامہ فرسائی کے زریں دور کی بات کریں توپتہ چلتا ہے کہ کرشن چندر 1955ء سے لے کر 1960ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ ان کی کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی‘ اور ’ایک گدھے کی سرگذشت‘ کا فی مقبول ہوئے تھے۔
کرشن چندر نے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے لکھے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو پردہ سیمیں پر پیش کیا۔

8 مارچ 1977ء کو کرشن چندر کا انتقال ہو گیا تھا۔(بشکریہ ویکیپیڈیا)

اور اب میں یہاں آپ کے سامنے کرشن چندر کا نہایت ہی مشہور افسانہ  " تائی ایسری " پیش کرنے جا رہا ہوں اُمید ہے کہ آپ لطف اندوز ہونگے۔ 

تائی ایسری
کرشن چندر
 میں گرانٹ میڈیکل کالج کلکتہ میں ڈاکٹری کا فائنل کورس کر رہا تھا اور اپنے بڑے بھائی کی شادی پر چند روز کے لئے لاہور آ گیا تھا۔ یہیں شاہی محلے کے قریب کوچہ ٹھاکر داس میں ہمارا جہاں آبائی گھر تھا، میری ملاقات پہلی بار تائی ایسری سے ہوئی۔
تائی ایسری ہماری سگی تائی تو نہ تھی، لیکن ایسی تھیں کہ انہیں دیکھ کر ہر ایک کا جی انہیں تائی کہنے کے لئے بے قرار ہو جاتا تھا۔ محلے کے باہر جب ان کا تانگہ آ کے رکا اور کسی نے کہا: ’’لو تائی ایسری آ گئیں ‘‘تو بہت سے بڑھے، جوان، مرد اور عورتیں انہیں لینے کے لئے دوڑے۔ دو تین نے سہارا دے کر تائی ایسری کو تانگے سے نیچے اتارا، کیونکہ تائی ایسری فربہ انداز تھیں اور چلنے سے یا باتیں کرنے سے یا محض کسی کو دیکھنے ہی سے ان کی سانس پھولنے لگتی تھی۔ دو تین رشتہ داروں نے یک بارگی اپنی جیب سے تانگہ کے کرائے کے پیسے نکالے۔ مگر تائی ایسری نے اپنی پھولی ہوئی سانسوں میں ہنس کر سب سے کہہ دیا کہ وہ تو پہلے ہی تانگہ والے کو کرایہ کے پیسے دے چکی ہیں اور جب وہ یوں اپنی پھولی سانسوں کے درمیان باتیں کرتی کرتی ہنسیں تو مجھے بہت اچھی معلوم ہوئیں۔ دو تین رشتہ داروں کا چہرہ اتر گیا اور انہوں نے پیسے جیب میں ڈالتے ہوئے کہا: ’’یہ تم نے کیا کیا تائی؟ ہمیں اتنی سی خدمت کا موقع بھی نہیں دیتی ہو!‘‘اس پر تائی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے اپنے قریب کھڑی ہوئی ایک نوجوان عورت سے پنکھی لے لی اور اسے جھلتے ہوئے مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔
تائی ایسری کی عمر ساٹھ سال سے کم نہ ہو گی، ان کے سر کے بال کھچڑی ہو چکے تھے اور ان کے بھرے بھرے گول مٹول چہرے پر بہت اچھے لگتے تھے۔ ان کا پھولی پھولی سانسوں میں معصوم باتیں کرنا تو سب کو ہی اچھا لگتا تھا۔ لیکن مجھے ان کے چہرے میں ان کی آنکھیں بڑی غیر معمولی نظر آئیں۔ ان آنکھوں کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ دھرتی کا خیال آیا ہے۔ میلوں دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں کا خیال آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی آیا ہے کہ ان آنکھوں کے اندر جو محبت ہے، اس کا کوئی کنارہ نہیں، جو معصومیت ہے اس کی کوئی ا تھاہ نہیں، جو درد ہے اس کا کوئی درماں نہیں۔
میں نے آج تک ایسی آنکھیں کسی عورت کے چہرے پر نہیں دیکھیں جو اس قدر وسیع اور بے کنار ہوں کہ زندگی کا بڑے سے بڑا اور تلخ سے تلخ تجربہ بھی ان کے لئے ایک تنکے سے زیادہ حیثیت نہ رکھے۔ ایسی آنکھیں جو اپنی پنہائیوں میں سب کچھ بہا لے جائیں، ایسی انوکھی، معاف کر دینے والی، درگزر کر دینے والی آنکھیں میں نے آج تک نہیں دیکھیں۔ تائی ایسری نے کاسنی شاہی کا گھاگھرا پہن رکھا تھا۔ جس پر سنہری گوٹے کا لہریا چمک رہا تھا۔ ان کی قمیض بسنتی ریشم کی تھی، جس پر زری کے پھول کڑھے ہوئے تھے۔ سر پر دوہرے ململ کا قرمزی دوپٹہ تھا۔ ہاتھوں میں سونے کے گوکھرو تھے۔ جب وہ گھر کے دالان میں داخل ہوئیں تو چاروں طرف شور مچ گیا۔ بہوئیں اور خالائیں اور نندیں اور بھاوجیں، موسیاں اور چچیاں سب تائی ایسری کے پاؤں چھونے کو دوڑیں۔ ایک عورت نے جلدی سے ایک رنگین پیڑھی کھینچ کر تائی ایسری کے لئے رکھ دی اور تائی ایسری ہنستے ہوئے اس پر بیٹھ گئیں اور باری باری سب کو گلے لگا کر سب کے سر پر ہاتھ پھیر کر سب کو دعا دینے لگیں۔
اور ان کے قریب ہیرو مہری کی بیٹی سوتری خوشی سے اپنی باچھیں کھلائے زور زور سے پنکھا جھل رہی تھی۔ تائی ایسری گھر سے رنگین کھپچی کی ایک ٹوکری لے کر آئی تھیں جو ان کے قدموں میں ان کی پیڑھی کے پاس ہی پڑی تھی۔ وہ باری باری سے سب کو دعائیں دیتی جاتیں اور کھپچی والی ٹوکری کھول کر اس میں سے ایک چونی نکال کر دیتی جاتیں۔ کوئی ایک سو چونیاں انہوں نے اگلے بیس منٹ میں بانٹ دی ہوں گی، جب سب عورتیں اور مرد، لڑکے اور بچے بالے ان کے پاؤں چھو کر اپنی اپنی چونی لے چکے تو انہوں نے اپنی ٹھوڑی اونچی کر کے پنکھا جھلنے والی لڑکی کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا۔
’’تو کون ہے؟‘‘
’’میں سوتری ہوں۔ ‘‘بچی نے شرماتے ہوئے جواب دیا۔
’’آئے ہائے، تو جے کشن کی لڑکی ہے؟ میں تو بھول ہی گئی تھی تجھے۔ آ جا گلے سے لگ جا….!‘‘
تائی ایسری نے اس کو گلے سے لگا لیا، بلکہ اس کا منہ بھی چوم لیا اور جب انہوں نے اسے اپنی کھپچی والی ٹوکری سے نکال کر چونی دی تو گھر کی ساری عورتیں قہقہہ مار کر ہنس پڑیں اور موسی کرتارو اپنی نیلم کی انگوٹھی والی انگلی نچا کر بولی: ’’تائی، یہ تو جے کشن کی بیٹی سوتری نہیں ہے، یہ تو ہیرو مہری کی بیٹی ہے۔ ‘‘
’’ہائے میں مر گئی۔ ‘‘تائی ایسری ایک دم گھبرا کر بولی، ان کی سانس پھول گئی۔ ’’ہائے اب تو مجھے نہانا پڑے گا، میں نے اس کا منہ بھی چوم لیا ہے۔ اب کیا کروں۔ ‘‘تائی ایسری نے اپنی بڑی بڑی حیران نگاہوں سے مہری کی بیٹی سوتری کی طرف دیکھا، جو اب اس طرح دھتکارے جانے پر سسکنے لگی۔ یکایک تائی کو اس پر رحم آ گیا۔ انہوں نے پھر اسے بانہہ سے پکڑ کر چمٹا لیا۔ ’’ناں ! ناں ! تو کیوں روتی ہے، تو تو انجان ہے، تو تو دیوی ہے، تو تو کنواری ہے، تیرے من میں تو پرمیشر بستے ہیں۔ تو کیوں روتی ہے، مجھے تو اپنے دھرم کے کارن نہانا ہی پڑے گا۔ پر تو کیوں روتی ہے۔ ایک چونی اور لے۔ ‘‘
تائی ایسری سے دوسری چونی پا کر مہری کی بیٹی سوتری اپنے آنسو پونچھ کر مسکرانے لگی۔ تائی ایسری نے ایک بازو اٹھا کر پرے دالان میں گزرتی ہوئی ہیرومہری کو دیکھ کر بلند آواز میں کہا۔
’’نی ہیرو۔ میرے اشنان کے لئے پانی رکھ دے۔ تجھے بھی ایک چونی دوں گی۔ ‘‘اس پر ساری محفل لوٹ پوٹ ہو گئی۔
تائی ایسری کو کئی لوگ چونی والی تائی کہتے تھے۔ کئی لوگ کنواری تائی کہتے تھے۔ کیونکہ یہ بھی مشہور تھا کہ جس دن سے تایا یودھ راج نے تائی ایسری سے شادی کی تھی۔ اس دن سے آج تک وہ کنواری کی کنواری چلی آرہی تھیں، کیوں کہ سنانے والے تو یہ بھی سناتے ہیں کہ تایا یودھ راج نے اپنی شادی سے پہلے جوانی میں اتنی خوبصورت عورتیں دیکھ ڈالی تھیں کہ جب ان کی شادی گاؤں کی اس سیدھی سادی لڑکی سے ہوئی تو شادی کے پہلے روز ہی وہ انہیں بالکل پسند نہ آئی۔ جب سے انہوں نے شادی کر کے انہیں بالکل اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ مگر کسی طرح کی سختی نہیں کرتے تھے۔ تایا یودھ راج ہر ماہ پچھتر روپے اسے بھیجتے تھے۔ وہ گاؤں میں رہتی تھی، اپنے سسرال کے ہاں اور سب کی خدمت کرتی تھی اور تایا یودھ راج جالندھر میں لوہے کا بیوپار کرتے تھے اور کئی کئی سال اپنے گاؤں میں نہیں جاتے تھے۔ میکے والوں نے کئی بار آ کر تائی کو لے جانا چاہا مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ میکے والوں نے یہ بھی چاہا کہ ان کی شادی پھر سے کر دی جائے۔ مگر تائی اس کے لئے بھی راضی نہ ہوئیں۔ وہ ایسے انہماک سے اپنے سسرال کے لوگوں کی خدمت کرتی رہیں کہ سسرال والے خود انہیں اپنی بیٹی اور بہو سے زیادہ چاہنے لگے۔ تایا یودھ راج کے باپ مانک چند نے تو اپنے گھر کی ساری چابیاں تائی ایسری کے سپرد کر دی تھیں اور ساس بھی اس حد تک چاہنے لگی تھی کہ انہوں نے اپنے سارے گہنے پاتے نکال کر تائی ایسری کی تحویل میں دے دیئے تھے۔ ویسے بہت سی عورتوں کو دیکھ کر یہ خیال بھی آتا ہے کہ جوانی میں کیسی رہی ہوں گی۔ مگر تائی ایسری کو دیکھ کر کبھی یہ خیال بھی نہ آیا۔ ہمیشہ یہی خیال آتا ہے کہ تائی ایسری شاید بچپن سے بلکہ جنم ہی سے ایسی پیدا ہوئی ہوں گی۔ پیدا ہوتے ہی انہوں نے اپنی ماں کو ہاتھ پھیلا کر آشیرواد دی ہو گی اور شاید بڑے میٹھے مہربان لہجے میں یہ بھی کہا ہو گا۔ تجھے میرے لئے بہت دکھ اٹھانے پڑے۔ اس لئے یہ لو ایک چونی!
شاید اسی لئے اپنے شوہر سے بھی ان کے تعلقات بے حد خوشگوار تھے۔ تایا یودھ راج ہمارے رشتہ داروں کی نظر میں شرابی، کبابی اور رنڈی باز تھے۔ وہ لوہے کے بڑے بیوپاری تھے تو کیا ہوا، انہیں اس طرح سے تائی ایسری کی زندگی برباد نہ کرنا چاہئے۔ مگر جانے کیا بات تھی، تائی ایسری کو قطعاً اپنی زندگی برباد ہونے کا کوئی غم نہ تھا۔ ان کے طرز عمل سے معلوم ہوتا تھا۔ جیسے انہیں اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ کسی نے ان کی زندگی برباد کی ہے…. ہر وقت ہنستی کھیلتیں باتیں کرتیں، ہر ایک کے سکھ اور دکھ میں شامل ہونے اور خدمت کرنے کے لئے تیار نظر آتیں۔ یہ تو بالکل ناممکن تھا کہ پڑوس میں کسی کے ہاں خوشی ہو اور وہ اس میں شریک نہ ہوں، کسی کے ہاں کوئی غم ہو اور وہ اس میں حصہ نہ بٹائیں۔ تائی ایسری کے شوہر امیر تھے، مگر وہ خود تو امیر نہ تھیں۔ پچھتر روپے جو انہیں ماہوار ملتے تھے وہ انہیں ہمیشہ دوسروں پر خرچ کر دیتی تھیں۔ مگر وہ سستے زمانے کے پچھتر روپے تھے۔ اسی لئے بہت سے لوگوں کے دکھ درد، دور ہو جاتے تھے۔ مگر لوگ ان سے ان کی وقت بے وقت کی مدد کی وجہ سے پیار نہیں کرتے تھے۔ ایسے ہی بہت سے موقع آتے تھے، جب تائی ایسری کی جیب میں ایک چھدام تک نہ ہوتا تھا۔ اس وقت بھی لوگ بے مزہ نہ ہوئے بلکہ یہی کہتے سنے گئے کہ تائی ایسری کے چرن چھو لینے ہی سے دل کو شانتی مل جاتی ہے۔
مگر جتنی اچھی تائی ایسری تھیں، تایا یودھ راج اتنے ہی برے تھے۔ تیس برس تک تو انہوں نے تائی ایسری کو اپنے ماں باپ کے گھر گاؤں ہی میں رکھا اور جب ان کے ماں باپ دونوں ہی مر گئے اور گھر خالی ہو گیا، گھر کے دوسرے افراد بڑے ہو گئے اور شادیاں کر کے اور اپنے گھر بسا کے دوسری جگہوں پر چلے گئے تو انہیں بادل نخواستہ تائی ایسری کو بھی جالندھر بلوانا پڑا۔ مگر یہاں تائی ایسری چند دنوں سے زیادہ نہ رہ سکیں۔ کیونکہ پکا باغ کے معزز پٹھانوں کی ایک لڑکی سے تایا یودھ نے یارانہ گانٹھنے کی کوشش کی تھی۔ نتیجہ میں انہیں جالندھر سے بھاگ کر لاہور آنا پڑا، کیوں کہ پکا باغ کے پٹھانوں نے آ کر تائی ایسری سے کہہ دیا تھا کہ صرف تمہاری وجہ سے ہم نے اسے زندہ چھوڑ دیا ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ تم اپنے گھر والے کو لے کر کہیں چلی جاؤ ورنہ ہم اسے زندہ نہ چھوڑیں گے اور تائی ایسری اس واقعہ کے چند روز بعد ہی تایا کو لے کر لاہور آ گئیں۔ محلہ ونجاراں میں انہوں نے ایک چھوٹا سا مکان لے لیا تھا۔ خوش قسمتی سے یا بدقسمتی سے یہاں بھی تایا یودھ راج کا بیوپار چند مہینوں میں چمک گیا۔ اسی اثناء میں انہوں نے شاہی محلے کی ایک طوائف لچھمی سے دوستی کر لی اور ہوتے ہوتے یہ قصہ یہاں تک بڑھا کہ اب انہوں نے مستقل طور پر اسی لچھمی کے گھر رہنا شروع کر دیا تھا اور محلہ ونجاراں میں قدم تک نہ دھرتے تھے۔ لیکن تائی ایسری کو دیکھ کر کبھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ انہیں اس امر کا اتا سا بھی ملال ہوا ہو گا۔
یہ وہ زمانہ تھا، جب تایا یودھ راج اور لچھمی طوائف کا قصہ زوروں پر تھا۔ انہی دنوں ہمارے بڑے بھائی کی شادی ہوئی۔ شادی میں تایا یودھ راج تو شریک نہ ہوئے، لیکن تائی نے رشتہ داروں، مہمانوں اور برات کی خدمت گزاری میں دن رات ایک کر دیا۔ ان کی خوش مزاجی سے پیچیدہ سے پیچیدہ گتھیاں بھی سلجھ گئیں۔ چہرے پر چڑھی ہوئی تیوریاں اتر گئیں اور جبینیں شکنوں سے صاف اور منور ہوتی گئیں۔ اس میں تائی کی کاوش کو کوئی دخل نہ تھا۔ سکون کی شعاعیں گویا خودبخود ان کے جسم سے پھوٹتی تھیں۔ انہیں دیکھتے ہی ہر ایک کا غصہ اتر جاتا۔ پیچیدہ سے پیچیدہ الجھنیں خودبخود سلجھ جاتیں۔ گھر بھر میں بشاشت بکھر جاتی، ایسی تائی ایسری۔
میں نے تائی ایسری کو کبھی کسی کی برائی کرتے نہیں دیکھا۔ کبھی قسمت کا گلہ کرتے نہیں دیکھا۔ ہاں ایک بار ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی تھی اور وہ واقعہ اسی شادی سے متعلق ہے۔
بڑے بھائی صاحب تو رات بھر شادی کی بیری پر بیٹھے رہے۔ صبح کے پانچ بجے شادی کے بعد لڑکی والوں نے اپنے گھر کے ہال کو جہیز کا سامان دکھانے کے لئے سجا دیا۔ پرانے زمانے تھے۔ اس زمانے میں صوفوں کی بجائے رنگین پیڑھیاں دی جاتی تھیں اور منقش پایوں والے پلنگ دیئے جاتے تھے۔ اس زمانے میں ڈرائنگ روم کو بیٹھک یا دیوان خانہ کہا جاتا۔ میرے بڑے بھائی کے سسر ملٹری میں ایگزیکٹو آفیسر تھے۔ چونکہ وہ پہلے ہندوستانی ایگزیکٹو آفیسر تھے۔ اس لئے انہوں نے جہیز میں بہت کچھ دیا تھا اور ساری ہی نئے فیشن کی چیزیں دی تھیں۔ ہماری برادری میں پہلی بار جہیز میں صوفہ سیٹ دیا گیا۔ ساری برادری میں اس صوفہ سیٹ کی دھوم مچ گئی۔ دور دور کے محلوں سے بھی عورتیں ’’انگریجی پیڑھیوں ‘‘کو دیکھنے کے لئے آنے لگیں۔ تائی ایسری کے لئے بھی صوفہ سیٹ دیکھنے کا پہلا موقعہ تھا۔ پہلے تو بڑی حیرانی سے اسے دیکھتی رہیں۔ اس پر ہاتھ پھیر کر من ہی من میں کچھ بڑبڑاتی رہیں۔ آخر ان سے رہا نہ گیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھ ہی لیا۔
’’وے کاکا۔ اس کو صوفہ سیٹ کیوں بولتے ہیں؟‘‘
اب میں اس کا جواب کیا دیتا۔ سر ہلا کر کہنے لگا: ’’مجھے نہیں معلوم تائی!‘‘
’’اچھا تو اس کی دو کرسیاں چھوٹی کیوں ہیں اور وہ تیسری کرسی لمبی کیوں ہے؟‘‘
میں پھر لاجواب ہو گیا۔ خاموشی سے انکار میں سر ہلا دیا۔
تائی دیر تک سوچتی رہیں۔ پھر یکایک جیسے ان کی سمجھ میں کچھ آ گیا۔ ان کا چہرہ، ان کی معصوم سی مسکراہٹ سے روشن ہو اٹھا۔ ’’بولیں:’’میں بتاؤں؟‘‘
’’میں نے کہا۔ ’’بتاؤ تائی!‘‘
وہ ہم سب کو بچوں کی طرح سمجھاتے ہوئے بولیں: ’’دیکھو، میرا خیال ہے کہ یہ لمبا صوفہ تو اس لئے بنا ہے کہ جب دونوں میاں بیوی میں صلح ہو تو وہ دونوں اس لمبے صوفے پر بیٹھیں اور جب ان دونوں میں لڑائی ہو تو الگ الگ ان دو چھوٹے چھوٹے صوفوں پر بیٹھیں۔ سچ مچ یہ انگریز بڑے عقل مند ہوتے ہیں جبھی تو ہم پر حکومت کرتے ہیں۔ ‘‘
تائی کی دلیل سن کر محفل میں ایک زوردار قہقہہ پڑا۔ مگر میں نے دیکھا کہ تائی یہ سوچ کر اور بات کہہ کر چپ سی ہو گئیں۔ کیا اس وقت انہیں اپنا اور اپنے خاوند کا جھگڑا یاد آیا تھا۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا۔
میں نے جب غور سے ان کی آنکھوں میں دیکھا تو ایک پل کے لئے مجھے ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نظر آئی۔ پھر مجھے محسوس ہوا، جیسے دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہو گیا ہو۔
کلکتہ سے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کرنے کے بعد میں نے وہیں ایک بنگالی لڑکی سے شادی کر لی اور دھرم تلے میں پریکٹس کرنے لگا۔ کئی سال کوشش کرتا رہا مگر پریکٹس نہ چلی۔ چنانچہ اپنے بڑے بھائی کے اصرار پر لاہور چلا آیا۔ بھائی صاحب نے کوچہ ٹھاکر داس کے نکڑ پر مجھے دوکان کھول دی اور میں اپنے گھر میں یعنی اپنے محلے میں اپنی برادری ہی کے سہارے پریکٹس چلانے لگا۔ کلکتہ میں، میں بالکل اناڑی تھا اور زندگی کا تجربہ بھی نہ تھا۔ یہاں آ کر جب آٹھ دس برسوں میں گاہک کو پھانسنے کی ترکیب سمجھ میں آئی تو پریکٹس خود بخود چل نکلی۔ اب دن رات مصروف رہتا تھا۔ بچے بھی ہو گئے تھے۔ اس لئے زندگی سوت کی انٹی کی طرح ایک ہی مدار پر چکر کھانے لگی۔ ادھر ادھر جانے کا موقع کم ملتا تھا۔ اب تو کئی برس سے تائی ایسری کا منہ نہ دیکھا تھا مگر اتنا سن رکھا تھا کہ تائی ایسری اس مکان میں محلہ ونجاراں میں رہتی ہیں اور تایا یودھ راج شاہی محلے میں اسی لچھمی کے مکان میں رہتے ہیں اور کبھی کبھی دوسرے تیسرے مہینے تائی ایسری کی خبر لینے آ جاتے ہیں۔
ایک روز میں صبح کے وقت مریضوں کی بھیڑ میں بیٹھا نسخے تجویز کر رہا تھا کہ محلہ ونجاراں کے ایک آدمی نے آ کر کہا: ’’جلدی چلئے ڈاکٹر صاحب، تائی ایسری مر رہی ہیں !‘‘
میں اسی وقت سب کام چھوڑ چھاڑ کر اس آدمی کے ساتھ ہو لیا۔ محلہ ونجاراں کے بالکل اس آخری سرے پر تائی ایسری کا مکان تھا۔ پہلی منزل کی سیڑھیاں چڑھ کر جب میں آہنی سلاخوں والے موکھے سے گزر کر ان کے نیم تاریک کمرہ میں داخل ہوا تو وہ بڑے بڑے تکیوں کا سہارا لئے پلنگ سے لگی بیٹھی تھی۔ ان کی سانس زور زور سے چل رہی تھی اور انہوں نے بڑے زور سے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں طرف گویا اپنے دل کو پکڑ رکھا تھا۔ مجھے دیکھ کر ہی وہ پھولے پھولے سانسوں میں مسکرانے لگیں۔ بولیں: ’’تو آ گیا پتر۔ اب میں بچ جاؤں گی۔ ‘‘
’’کیا تکلیف ہو گئی ہے تائی؟‘‘
’’ہوتا کیا، موت کا بلاوا آ گیا تھا۔ دو دن مجھے سخت کس (بخار) رہی۔ پھر ایکا ایکی جسم ٹھنڈا ہونے لگا۔ (بیان کرتے کرتے تائی کی آنکھوں کی پتلیاں پھیلنے لگیں) پہلے ٹانگوں سے جان گئی۔ ٹانگوں کو ہاتھ لگاؤ تو ٹھنڈی یخ، چٹکی بہرو تو کچھ محسوس نہ ہو، پھر دھیرے دھیرے میری جان کمر سے نکل گئی اور جب میری جان اوپر سے بھی نکلنے لگی تو میں نے زور سے اپنے کلیجہ کو پکڑ لیا۔ ‘‘تائی اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں طرف اپنے دل والے حصے کو اور زور سے پکڑ کر بولیں: ’’تو میں نے زور سے اپنے کلیجہ کو پکڑ لیا اور چلائی، ارے کوئی ہے، کوئی ہے تو جائے اور جے کشن کے بیٹے رادھا کشن کو بلا کے لائے، وہی مجھے ٹھیک کر سکتا ہے…. اب تم آ گئے ہو، اب…. اب میں بچ جاؤں گی۔ ‘‘تائی ایسری نے مکمل طمانیت سے کہا۔
میں نے اپنا ہاتھ تائی کے دائیں ہاتھ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’تائی ذرا اپنا یہ ہاتھ ادھر کرو، تمہاری نبض تو دیکھوں۔ ‘‘
ایک دم تائی دوسرے ہاتھ سے میرا ہاتھ جھٹک کر بولیں: ’’ہائے وے تم کیسے ڈاکٹر ہو، تجھے اتنا نہیں معلوم کہ اس ہاتھ سے تو میں نے اپنی جان پکڑ رکھی ہے، اس ہاتھ کی نبض تجھے کیسے دکھا سکتی ہوں۔ ‘‘
تائی چند ہفتوں میں اچھی ہو گئیں۔ انہیں بلڈ پریشر کی شکایت تھی۔ جب وہ جاتی رہی تو پھر اٹھ کر گھومنے لگیں اور اپنے پرائے سب کے سکھ دکھ میں بدستور شریک ہونے لگیں۔ لیکن جب وہ اچھی ہوئیں تو اس کے چند ماہ بعد ہمارے تایا یودھ راج کا انتقال ہو گیا۔ وہیں لچھمی کے گھر شاہی محلے میں ان کا انتقال ہوا۔ وہیں سے ان کی ارتھی اٹھی کیوں کہ تائی نے ان کی لاش کو گھر لانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ تائی نہ ارتھی کے ساتھ گئیں نہ انہوں نے شمشان گھاٹ کا رخ کیا نہ ان کی آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ تک نکلا تھا۔ انہوں نے خاموشی سے اپنے سہاگ کی چوڑیاں توڑ ڈالیں۔ رنگین کپڑے اتار کر سپید دھوتی پہن لی اور ماتھے کی سیندور پونچھ کر چولہے کی راکھ اپنے ماتھے پر لگا لی۔ مگر ان کے دھرم کرم میں اور کسی طرح کا فرق نہ آیا بلکہ اپنے سفید بالوں سے وہ اب اس سفید دھوتی میں اور بھی اچھی لگ رہی تھیں۔ تائی کی اس حرکت پر برادری میں چہ میگوئیاں ہوئیں، سب کو اچنبھا ہوا۔ کچھ لوگوں نے برا بھی مانا۔ مگر تائی کی عزت اس قدر تھی کہ ان کے سامنے زبان کھولنے کی کسی کو ہمت نہ پڑی!
چند برس اور گزر گئے۔ اب میری پریکٹس اس قدر چمک اٹھی تھی کہ میں نے محلہ ٹھاکر داس کے شاہ عالمی گیٹ کے اندر کوچہ کرماں اور وچھو والی کے چوک میں بھی پریکٹس شروع کر دی تھی۔ صبح میں محلہ ٹھاکر داس میں بیٹھتا تھا، شام کو وچھو والی میں۔ زندگی کچھ اس نہج سے گزر رہی تھی کہ تائی ایسری کو دیکھے ہوئے ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو برس گزر جاتے تھے مگر گھر کی عورتوں سے تائی ایسری کی خبر ملتی رہتی تھی۔ تایا یودھ راج نے اپنے بینک کا روپیہ بھی لچھمی کو سونپ دیا تھا۔ مگر جالندھر کی دکان اور مکان تائی ایسری کے نام لکھ گئے تھے۔ ان سے ہر ماہ تائی ایسری کو ڈیڑھ سو روپیہ کرایہ آ جاتا تھا۔ وہ بدستور اسی طرح محلہ ونجاراں میں رہتی تھیں اور دن رات اپنے دھرم کرم میں ڈوبی رہتی تھیں۔
ایک روز اتفاق سے جب میں شاہی محلے میں ایک مریض کو دیکھ کر لوٹ رہا تھا تو مجھے تایا یودھ راج کی یاد آ گئی اور ان کی یاد سے لچھمی کی یاد آ گئی۔ کیونکہ لچھمی بھی تو اسی شاہی محلہ میں کہیں رہتی تھی اور جب لچھمی کی یاد آئی تو میرا ذہن فوراً تائی ایسری کی طرف منتقل ہو گیا اور میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا۔ غالباً بارہ پندرہ مہینوں سے میں تائی ایسری کو دیکھنے نہ گیا تھا۔ میں نے سوچا میں کل یا پرسوں پہلی فرصت ہی میں تائی ایسری کو دیکھنے جاؤں گا۔
ابھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ شاہی محلے کی ایک گلی سے میں نے تائی ایسری کو نکلتے دیکھا۔ قرمزی شاہی کے بجائے اب وہ سیاہ شاہی کا گھاگھرا پہنے تھیں جس پر نہ گوٹہ تھا نہ لچکا۔ قمیض بھی سفید رنگ کی تھی اور سر پر انہوں نے سفید ململ کا دوہرا دوپٹہ لے رکھا تھا۔ جس میں ان کا گول مٹول چہرہ بالکل میڈونا کی طرح معصوم اور پراسرار نظر آ رہا تھا۔
جس لمحہ میں نے انہیں دیکھا اسی لمحہ انہوں نے بھی مجھے دیکھا اور مجھے دیکھتے ہی وہ شرما سی گئیں اور فوراً مجھ سے کترا کر واپس گلی میں جانے لگیں کہ میں نے انہیں فوراً آواز دے دی۔ میری آواز میں ایک ایسی حیرت تھی جو ایک چیخ سے مشابہ تھی۔ یہ تائی ایسری یہاں طوائفوں کے محلے میں کیا کر رہی تھیں؟
’’تائی ایسری!‘‘میں نے چلا کر کہا۔ ’’تائی ایسری!‘‘میں نے پھر آواز دی۔
میری آواز سن کر وہ پلٹ آئیں۔ سامنے آ کر ایک گنہگار مجرم کی طرح کھڑی ہو گئیں۔ ان کی نگاہیں اوپر نہ اٹھتی تھیں۔
’’تائی ایسری تم یہاں کیا کرنے آئی ہو؟‘‘میں نے کچھ حیرت سے کچھ غصے سے ان سے کہا۔
وہ اسی طرح سر نیچا کئے آہستہ آہستہ جھجکتے جھجکتے بولیں: ’’وے پتر! کیا بتاؤں وہ…. وہ…. میں نے سنا تھا کہ لچھمی بیمار ہے، بہت سخت بیمار ہے۔ میں نے سوچا اسے دیکھ آؤں ….!‘‘
’’تم یہاں لچھمی کو دیکھنے آئی تھیں؟‘‘میں نے غم اور غصے سے تقریباً چیخ کر کہا۔
’’لچھمی کو…. لچھمی کو…. اس بد ذات چھنال کو؟…. جس نے…. جس نے!‘‘
تائی ایسری نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا اور میں کہتے کہتے رک گیا…. ’’نہ کاکا! اس کو کچھ نہ کہو…. کچھ نہ کہو….!‘‘تائی ایسری نے اپنی ڈبڈباتی ہوئی آنکھیں اوپر اٹھائیں اور ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولیں:
’’مرنے والے کی یہی ایک نشانی رہ گئی تھی۔ آج وہ بھی چل بسی!‘‘
سن 47ءکے فسادات میں ہم لوگ لاہور چھوڑ کر جالندھر میں پناہ گزین ہوئے۔ کیوں کہ یہاں پر تائی ایسری کا گھر تھا۔ خاصہ کھلا دو منزلہ گھر تھا۔ اوپر کی منزل انہوں نے اپنے رشتہ دار پناہ گزینوں کو دے ڈالی تھی۔ نچلی منزل میں وہ خود رہتی تھیں۔ ہر روز وہ ریفیوجی کیمپوں میں سیوا کرنے جاتیں اور کبھی کبھار دو ایک یتیم بچے اٹھا لاتیں۔ چار پانچ ماہ ہی میں انہوں نے چار لڑکے اور تین لڑکیاں اپنے پاس رکھ لیں۔ کیوں کہ ان کے ماں باپ کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ پچھواڑے کے آنگن اور سامنے دالان میں انہوں نے مختلف پناہ گزینوں کو سونے اور کھانا پکانے کی اجازت دے دی تھی۔ ہوتے ہوتے ایک اچھا خاصا گھر سرائے میں تبدیل ہو گیا۔ مگر میں نے تائی ایسری کے ماتھے پر کبھی ایک شکن نہیں دیکھی۔ وہ اپنے گھر میں بھی باہر سے اس طرح آتی تھیں جیسے وہ گھر ان کا نہ ہو، ان پناہ گزینوں کا ہو جنہیں انہوں نے اپنے گھر میں رہنے کی خود اجازت دی تھی۔ عورتوں میں شخصی جائیداد کی حس بہت تیز ہوتی ہے۔ مگر میں نے عورتوں میں تو کیا مردوں میں بھی ایسا کوئی فرد مشکل ہی سے دیکھا ہو گا۔ جسے تائی ایسری کی طرح شخصی جائیداد کا اس قدر کم احساس ہو۔ قدرت نے ان کے دماغ میں شاید یہ خانہ ہی خالی رکھا تھا۔ ان کے پاس جو کچھ تھا دوسروں کے لئے وقف تھا۔ جالندھر آ کر وہ صرف ایک وقت کھانا کھانے لگی تھیں۔ میں ان کی ان حرکتوں سے بہت چڑتا تھا۔ کیونکہ میں نے اپنی قیمتی پریکٹس لاہور میں کھو دی تھی۔ میری ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی بھی وہیں رہ گئی تھی اور اب میرے پاس سر چھپانے کو کہیں جگہ نہ تھی۔ میرے پاس نہ ڈھنگ کے کپڑے تھے نہ روپیہ پیسہ تھا، نہ کھانا پینا تک کا ہو سکتا تھا۔ جو ملا کھا لیا، جب ملا کھا لیا، نہ ملا تو بھوکے رہ گئے۔ انہی دنوں مجھے خونی بواسیر لاحق ہو گئی۔ دوائیں تو میں نے طرح طرح کی استعمال کیں کیونکہ میں خود ڈاکٹر تھا۔ مگر اس بے سر و سامانی میں علاج کے ساتھ پرہیز ضروری ہے، وہ کہاں سے ہوتا۔ نتیجہ ہوا کہ میں دن بدن کمزور ہوتا چلا گیا۔ کچھ روز تک تو میں نے تائی سے اپنی حالت کو چھپائے رکھا مگر ایک دن انہیں پتہ چل ہی گیا۔ فوراً گھبرائی گھبرائی میرے پاس پہنچیں اور مجھ سے کہنے لگیں …. ’’کاکا!میں تم سے کہتی ہو یہ خونی بواسیر ہے۔ یہ ڈاکٹری علاج سے ٹھیک نہ ہو گی۔ تم ایسا کرو، کرایہ مجھ سے لو اور سیدھے گوجرانوالہ چلے جاؤ، وہاں محلہ سنیاراں میں چاچا کریم بخش جراح رہتا ہے۔ اس کے پاس ایک ایسی دوائی ہے جس سے خونی بواسیر ٹھیک ہو جاتی ہے۔ تیرے تایا کو بھی آج سے بیس سال پہلے یہ تکلیف ہو گئی تھی اور چاچا کریم بخش ہی نے ٹھیک کر دیا تھا۔ دس دن میں وہ ٹھیک ہو کر گوجرانوالہ سے جالندھر آ گئے تھے۔ ‘‘
یہ سن کر مجھے بے حد غصہ آیا۔ میں نے کہا: ’’تائی مجھے معلوم ہے۔ اب میں گوجرانوالہ نہیں جا سکتا۔ ‘‘
’’کیوں نہیں جا سکتا۔ ٹکٹ کے پیسے میں دیتی ہوں !‘‘
’’ٹکٹ کا سوال نہیں ہے، گوجرانوالہ اب پاکستان میں ہے۔ ‘‘
’’پاکستان میں ہے تو کیا ہوا، کیا ہم دوا دارو کے لئے وہاں نہیں جا سکتے! وہاں اپنا چاچا کریم بخش….!‘‘
میں نے تائی کی بات کاٹ کر کہا: ’’تائی تجھے کچھ معلوم تو ہے نہیں، خواہ مخواہ الٹی سیدھی باتیں کرتی ہو۔ مسلمانوں نے اب اپنا دیس الگ کر لیا ہے۔ اس کا نام پاکستان ہے۔ ہمارے دیس کا نام ہندوستان ہے۔ اب نہ ہندوستان والے پاکستان جا سکتے ہیں، نہ پاکستان والے یہاں آ سکتے ہیں۔ اس کے لئے پاسپورٹ کی ضرورت ہو گی!‘‘
تائی کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ بولیں: ’’پاس کورٹ؟ کیا اس کے لئے کچہری جانا پڑتا ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں اس کے لئے کچہری جانا پڑتا ہے۔ ‘‘میں نے جلدی سے ٹالنے کے لئے کہہ دیا۔ اب اس بڈھی کو کون سمجھائے۔
’’نہ بیٹا۔ کورٹ جانا تو اچھا نہیں ہے۔ شریفوں کے بیٹے کبھی کچہری نہیں جاتے مگر وہ چاچا کریم بخش….!‘‘
’’بھاڑ میں جائے چاچا کریم بخش۔ ‘‘میں نے چلا کر کہا۔
بیس سال پہلے کی بات کرتی ہو، جانے وہ تمہارا چاچا کریم بخش آج زندہ بھی ہے یا مر گیا ہے۔ مگر تم وہی اپنا چاچا کریم بخش رٹے جا رہی ہو۔ ‘‘
تائی روتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد مجھے اپنی تنک مزاجی پر بے حد افسوس ہوا۔ کیوں میں نے اس معصوم عورت کا دل دکھایا۔ اگر تائی آج کی زندگی کی بہت سی دشواریوں کو نہیں سمجھ سکتی ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور ہے؟
دراصل میں ان دنوں بہت ہی تلخ مزاج ہو چلا تھا۔ کالج کے دنوں میں، میں اکثر انقلاب کی باتیں کیا کرتا تھا۔ پھر جب زندگی نے مجھے کامرانی بخشی اور میری پریکٹس چل نکلی تو انقلاب کا جوش سرد پڑ گیا اور ہوتے ہوتے یہ لفظ میرے ذہن سے محو ہو گیا۔ اب جالندھر آ کر جو یہ افتاد پڑی تو میرے دل میں پھر سے انقلاب کے خیال نے کروٹ لی اور میں اپنی طرح کے چند جوشیلے اور لٹے پٹے لوگوں کی صحبت میں بیٹھ کر پھر سے اسی تلخی، تیزی اور تندی سے انقلاب کی باتیں کرنے لگا۔
یہ سب لوگ اکثر تائی ایسری کی دوسری منزل میں میرے کمرے میں ملتے۔ چائے کا دور چلتا اور دنیا جہان کی باتیں ہوتیں اور میں جوش میں اپنا مکا ہوا میں لہرا کر کہتا۔ ہم سے انصاف نہیں ہو رہا ہے اور ان لوگوں سے انصاف کی توقع بھی نہیں ہے۔ یقیناً اس ملک میں پھر ایک انقلاب آئے گا اور ضرور آ کے رہے گا وہ انقلاب!
ایک دن تائی ایسری نے ہماری باتیں سن لیں تو گھبرائی گھبرائی اندر آئیں۔ بولیں: ’’بیٹا! کیا مسلمان یہاں پھر آئیں گے؟‘‘
’’نہیں تائی، تم سے کس نے کہا؟‘‘
’’تو تم یہاں کس انقلاب کا ذکر کر رہے ہو جو یہاں آئے گا؟‘‘
تائی نے انقلاب کو مسلمان سمجھا تھا، جب یہ بات ہماری سمجھ میں آئی تو ہم سب ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے۔
’’کتنی بھولی ہے ہماری تائی۔ اری تائی، ہم تو اس انقلاب کا ذکر کر رہے ہیں جو نہ ہندو ہے نہ مسلمان ہے، جو سب کا انقلاب ہے۔ ہم تو اس انقلاب کو لانا چاہتے ہیں۔ ‘‘
مگر تائی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ وہ ہولے سے سر ہلا کر بولیں۔
’’اچھا تم لوگ باتیں کرو۔ میں تمہارے لئے چائے بنا کے لاتی ہوں۔ ‘‘
تائی نے میری مدد کرنے کے لئے اپنا سولہ تولے کا ایک گوکھرو بیچ دیا۔ اس رقم کو لے کر میں اپنی فیملی کے ساتھ دہلی آ گیا۔ کیونکہ جالندھر میں افراتفری تھی اور غیریقینی سی حالت ہر وقت چھائی رہتی تھی۔ دہلی آ کر میں نے پھر سے پریکٹس شروع کر دی۔ چند سالوں ہی میں میری پریکٹس پھر چمک اٹھی۔ میں قرول باغ میں پریکٹس کرتا تھا اور قرول باغ لاہور کے بہت سے ریفیوجیوں سے بھرا پڑا تھا جو مجھے جانتے تھے۔ ہولے ہولے میں نے اپنا اڈہ ٹھیک سے جما لیا۔ پریکٹس چمک اٹھی، دس سال میں میں نے قرول باغ میں اپنی کوٹھی کھڑی کر لی۔ گاڑی بھی خرید لی۔ اب قرول باغ کے سر کر دہ افراد میں میرا شمار ہوتا تھا۔ اب میں انقلاب کی باتیں بھول بھال گیا۔ میری خونی بواسیر بھی ٹھیک ہو گئی اور تلخی کے بجائے مزاج میں شگفتگی عود کر آئی جو ایک ڈاکٹر کے مزاج کے لئے از حد ضروری ہے۔
تیرہ سال کے بعد گزشتہ مارچ میں مجھے ایک عزیز کی شادی میں جالندھر جانا پڑا۔ اس تیرہ سال کے عرصہ میں، میں تائی ایسری کو بھول بھال گیا تھا۔ رشتہ دار تو اس وقت یاد آتے ہیں، جب مریض نہ ہوں۔ لیکن جالندھر پہنچتے ہی مجھے تائی ایسری کی یاد آئی۔ ان کے احسانات یاد آئے۔ وہ سونے کا گوکھرو یاد آیا، جسے بیچ کر میری پریکٹس چلانے کی رقم بہم پہنچائی گئی تھی اور وہ رقم میں نے آج تک تائی ایسری کو ادا نہیں کی تھی۔ جالندھر اسٹیشن پر اترتے ہی میں سیدھا تائی ایسری کے گھر چلا گیا۔
شام کا جھٹپٹا تھا، ہوا ایندھن کے دھوئیں، تیل کی بو اور گھر واپس آتے ہوئے بچوں کی آوازوں سے معمور تھی۔ جب میں تائی ایسری کے مکان کی نچلی منزل میں داخل ہوا۔ گھر میں اس وقت تائی کے سوا کوئی نہیں تھا۔ وہ اپنے گھر میں بھگوان کی مورتی کے سامنے گھی کا دیا جلائے پھول چڑھا کر ہاتھ جوڑ کر واپس گھوم رہی تھی، جب کہ انہوں نے میری آہٹ پاکر پوچھا۔
’’کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں !‘‘میں نے کمرہ میں قدم آگے بڑھا کر مسکراتے ہوئے کہا۔
تائی دو قدم آگے بڑھیں، مگر مجھے پہچان نہ سکیں۔ تیرہ برس کا عرصہ بھی ایک عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصہ میں وہ بے حد نحیفو نزار ہو گئی تھیں۔ ان کا چہرہ بھی دبلا ہو گیا تھا اور وہ ہولے ہولے قدم اٹھاتی تھیں۔
’’میں رادھا کشن ہوں۔ ‘‘
’’جے کشن دا کاکا؟‘‘تائی کی آواز بھرا گئی۔ ممکن تھا وہ جلدی سے آگے بڑھنے کی کوشش میں گر پڑتیں۔ مگر میں نے انہیں جلدی سے تھام لیا اور وہ میرے بازو سے لگ کر رونے لگیں۔ انہوں نے میری بلائیں لیں، میرا منہ چوما، میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولیں:
’’اتنے دن کہاں رہے بیٹا؟ اپنی تائی کو بھی بھول گئے؟‘‘
انتہائی شرمندگی سے میرا سر جھک گیا۔ میں نے کچھ کہنا چاہا۔ مگر کچھ کہہ نہ سکا۔ تائی نے میری پریشانی کو فوراً بھانپ لیا۔ جلدی سے پھولے پھولے سانسوں میں اکھڑے اکھڑے لہجہ میں بولیں: ’’سروج راضی خوشی ہے نا؟‘‘
’’ہاں تائی۔ ‘‘
’’اور وڈا کاکا۔ ‘‘
’’ڈاکٹری میں پڑھتا ہے۔ ‘‘
’’اور نکا؟‘‘
’’کالج میں پڑھتا ہے۔ ‘‘
’’اور شانو اور بٹو؟‘‘
’’وہ دونوں بھی کالج میں پڑھتی ہیں۔ کملا کی میں نے شادی کر دی ہے!‘‘
’’میں نے بھی ساوتری کی شادی کر دی ہے۔ پورن اب رڑکی میں پڑھتا ہے۔ نمی اور بنی کے ماں باپ مل گئے تھے وہ آ کر ان کو چھ سال کے بعد لے گئے تھے۔ کبھی کبھی ان کی چٹھی پتری آ جاتی ہے۔ میرے پاس اب صرف گوپی رہ گیا ہے۔ اگلے سال وہ بھی ریلوے ورکشاپ میں کام سیکھنے کے لئے چلا جائے گا۔ ‘‘
یہ تائی کے ان یتیم بچوں کی داستان تھی جو انہوں نے فساد میں لے کر پالے تھے۔
میں نے ناخن سے اپنی ٹھوڑی کھجاتے کھجاتے کہا: ’’تائی وہ تیرا قرضہ مجھ پر باقی ہے، کیسے بتاؤں کتنا شرمندہ ہوں، اب تک نہ بھیج سکا۔ اب دلی جاتے ہی بھیج دوں گا۔ ‘‘
’’کیسا قرضہ بیٹا؟‘‘تائی نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’وہی گوکھرو والا!‘‘
’’اچھا وہ؟‘‘یکایک تائی کو یاد آیا اور وہ بڑے میٹھے انداز میں مسکرانے لگیں۔ پھر میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولیں: ’’وہ تو تیرا قرضہ تھا بیٹا، جو میں نے چکا دیا!‘‘
’’میرا قرضہ کیسا تھا تائی؟‘‘میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’یہ زندگی دوسروں کا قرضہ ہے بیٹا۔ ‘‘تائی سنجیدہ رو ہو کر بولیں: ’’اسے چکاتے رہنا چاہئے۔ تو کیا اس سنسار میں خود پیدا ہوا تھا؟ نہیں، تجھے تیرے ماں باپ نے زندگی دی تھی تو پھر تیری زندگی کسی دوسرے کا قرضہ ہوئی کہ نہیں؟ پھر یہ قرضہ ہم نہیں چکائیں گے تو یہ دنیا آگے کیسے چلے گی۔ ایک دن پرلے (قیامت) آ جائے گی…. بیٹا۔ اسی لئے تو کہتی ہوں، میں نے تیرا قرضہ چکایا ہے تو کسی دوسرے کا قرضہ چکا دے…. ہر دم چکاتے رہنا، جیون کا دھرم ہے۔ ‘‘تائی اتنی لمبی بات کر کے ہانپنے لگیں۔
میں کیا کہتا، روشنی سے سایہ کہہ بھی کیا سکتا ہے؟ اسی لئے میں سب کچھ سن کر چپ ہو گیا۔ وہ بھی چپ ہو گئیں۔ پھر آہستہ سے بولیں: ’’اب میرے ہاتھ پاؤں کام نہیں کرتے، ورنہ تیرے لئے کھانا پکاتی۔ اب گوپی آئے گا تو کھانا بنائے گا تیرے لئے۔ کھانا کھا کر جانا…. میں ….‘‘
’’نہیں تائی اس کی کیا ضرورت ہے۔ وہاں بھی تیرا ہی دیا کھاتے ہیں۔ ‘‘میں نے آہستہ سے کہا: ’’میں یہاں تیج پال کی شادی پر آیا تھا۔ اسٹیشن سے سیدھا تمہارے گھر آ رہا ہوں۔ اب شادی والے گھر جاؤں گا۔ ‘‘
’’بلاوا تو مجھے بھی آیا ہے۔ مگر دو دن سے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس لئے میں نہیں جا سکتی۔ شگن میں نے بھیج دیا تھا، تم میری طرف سے تیج پال کے سر پر پیار دینا!‘‘
’’بہت اچھا تائی‘‘…. کہہ کر میں تائی کے چرنوں میں جھکا۔ انہوں نے مجھے بڑے پیار سے اپنے گلے لگا لیا۔ میرے سر پر ہاتھ پھیر کر سو سو دعائیں دے کر بولیں۔
’’بیٹا! میرا ایک کام کرو گے؟‘‘
’’حکم کرو تائی۔ ‘‘
’’کیا کل تم صبح آ سکتے ہو؟‘‘
’’کیا بات ہے تائی، اب میں تمہیں مل کے تو جا رہا ہوں۔ ‘‘
تائی جھجکتے جھجکتے بولیں: ’’میری آنکھیں کمزور ہو چکی ہیں۔ رات میں مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسا جنم جلا اندھیرا چھایا ہے کہ کچھ نظر نہیں آتا۔ اگر تم صبح کسی وقت دن میں آ جاؤ تو میں تمہیں اچھی طرح دیکھ لوں گی۔ تیرہ سال سے تجھے نہیں دیکھا ہے کاکا!‘‘
میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے گلو گیر لہجے میں کہا۔
’’آ جاؤں گا تائی!‘‘
دوسرے دن بارات کے لوگ کچھ آنے والے تھے۔ صبح ہی ہم لوگوں کو پیشوائی کے لئے اسٹیشن پر جانا تھا۔ وہاں سے لوٹتے وقت مجھے یاد آیا۔ میں ان لوگوں سے معذرت کر کے تائی ایسری کے گھر کی طرف ہو لیا۔ گلی کے موڑ پر مجھے دو دو چار چار کی ٹولیوں میں لوگ سر جھکائے ملے۔ مگر میں جلدی جلدی سے قدم بڑھاتا ہوا آگے چلا گیا۔ مکان کی نچلی منزل پر مجھے اور بہت سے لوگ روتے ہوئے ملے۔ معلوم ہوا آج صبح تائی ایسری کی موت واقع ہو گئی اور جب ہم اسٹیشن گئے ہوئے تھے وہ چل بسی۔
اندر کمرے میں ان کی لاش پڑی تھی۔ ایک سفید چادر میں ملبوس، چہرہ کھلا رہنے دیا تھا۔ کمرہ میں کافور اور لوبان کی خوشبو تھی اور ایک پنڈت ہولے ہولے وید منتر پڑھ رہا تھا!
تائی ایسری کی آنکھیں بند تھیں اور ان کا معصوم بھورا بھورا چہرہ، پرسکون خاموش اور گہرے خوابوں میں کھویا ہوا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ تائی ایسری کا چہرہ نہ ہو، دھرتی کا پھیلا ہوا لا متناہی چہرہ ہو۔ جس کی آنکھوں سے ندیاں بہتی ہیں۔ جس کی ہر شکن میں لاکھوں وادیاں انسانی بستیوں کو اپنی آغوش میں لئے مسکراتی ہیں۔ جس کے انگ انگ سے بے غرض پیار کی مہک پھوٹتی ہے، جس کی معصومیت میں تخلیق کی پاکیزگی جھلکتی ہے، جس کے دل میں دوسروں کے لئے وہ بے پناہ مامتا جاگتی ہے جس کا مزہ کوئی کوکھ رکھنے والی ہستی ہی پہچان سکتی ہے۔
میں ان کے پاؤں کے قریب کھڑا ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یکایک کسی نے آہستہ سے میرے شانے پر ہاتھ رکھا…. میں نے پلٹ کر دیکھا تو میرے سامنے ایک بائیس تیئس برس کا نوجوان کھڑا تھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ ابھی روئی ہیں، ابھی پھر رو دیں گی۔
اس نے آہستہ سے کہا: ’’میں گوپی ناتھ ہوں۔ ‘‘
میں سمجھ تو گیا، مگر خاموش رہا۔ کچھ سمجھ بھی نہیں آتا تھا کیا کہوں کیا نہ کہوں۔
’’میں تیج پال کے گھر آپ کو ڈھونڈنے گیا تھا۔ مگر آپ اسٹیشن پر گئے ہوئے تھے۔ ‘‘
وہ پھر بولا۔
میں پھر بھی چپ رہا!
گوپی ناتھ دھیرے سے بولا: ’’صبح تائی نے آپ کو بہت یاد کیا۔ انہیں معلوم تھا کہ آپ آنے والے ہیں۔ اس لئے وہ مرتے مرتے بھی آپ کا انتظار کرتی رہیں۔ آخر جب انہیں یقین ہو گیا کہ مرنے کا وقت آن پہنچا ہے اور آپ نہیں آئیں گے تو انہوں نے مجھ سے کہا: جب میرا بیٹا رادھا کشن آئے تو اسے یہ دے دینا۔ ‘‘
یہ کہہ کر گوپی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور میری ہتھیلی پر ایک چونی رکھ دی۔
چونی دیکھ کر میں رونے لگا۔
مجھے نہیں معلوم۔ آج تائی ایسری کہاں ہیں، لیکن اگر وہ سورگ میں ہیں تو وہ اس وقت بھی یقیناً ایک رنگین پیڑھی پر بیٹھی اپنی پچھی سامنے کھول کر بڑے اطمینان سے دیوتاؤں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہیں چونیاں ہی بانٹ رہی ہوں گی۔


Labels

Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) Aleppo (2) Allama Muhammad Iqbal (82) Answer (4) Auliya Allah (2) Aurat (6) Baa ki kahawtain (18) Bahadur Shah Zafar (2) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) Children (2) China (2) College (3) DHRAAM (1) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) Divorce (10) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) Fatawa (14) Finance (7) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) Hadisa (2) Hajj (3) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) Ibn e Insha (87) Imran Sereis Novels (8) India (3) Intzar hussain (2) Ishq (3) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) Jihad (2) Khawaja Haider Ali aatish (2) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) Letter (2) Love (5) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) Menses (3) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) Mustahabbat (3) Novels (15) Novels Books (11) PROVERBS (370) Pakistan (4) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) Question (3) Qurbani (2) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) Sabolate Aager (2) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) Sawal (3) School (3) Shakeel Badauni (2) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) UMRAH (3) URDU ENGLISH PROVERBS (42) URDU PROVERBS (202) University (2) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) Valentine Day (9) Wasi Shah (28) Wudu (2) Zakat (3) aa ki kahawtain (13) afzal rao gohar (4) alama semab akbar abadi (32) alif ki kahawtain (8) andra warma (2) anwar masuod (2) aziz ajaz (3) babu gopinath (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) chor (5) daal ki kahawtain (10) dhal ki kahawtain (2) dil (2) download (7) elam (5) eman (3) faraiz (6) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) hadisain (223) halaku khan (2) haya (4) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) islamic (319) jeem ki kahawtain (13) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) king (6) laam ki kahawtain (4) maa (9) marriage (2) meem ki kahawtain (12) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) muskrahat (2) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) pa ki kahawtain (8) parveen shakir (50) poetry (1309) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) ra ki kahawtain (3) sabaq aamoz (55) saghar Siddiqui (226) saghar nizami (2) saifuddin saif (2) sauod usmani (2) seen ki kahawtain (10) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) syed moeen bally (2) ta ki kahawtain (8) toba (4) udru (14) urdu (239) urdu short stories (151) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) wow ki kahawtain (2) writers (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) zina (10)