Showing posts with label chor. Show all posts
Showing posts with label chor. Show all posts

Tuesday, 23 May 2017

Chor " A Famous Urdu Short Story By Ibn e Muneeb





چور
اِبنِ مُنیب 
 اُسے پتا تھا کہ آج وہ پکڑا جائے گا۔
آنے والی مشکل کی بُو ہوا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔
صبح سویرے گھر سے نکلنا اور پھر گھنٹوں بعد لوٹنا اب اُس کی عادت بن چکی تھی۔ مگر شاید آج کسی نے اُس کا پیچھا کاٹ تھا۔
اور یہ عادت؟ یہ عادت اُسے پڑی کیسے؟
پہلے پہل تو وہ گھر سے نکلتا اور ارد گرد بنگلوں کے بیچ سے ہوتا ہوا بڑی سڑک تک پہنچتا۔ پھر سڑک پار کر کے پُرانے اور خستہ مکانوں کے درمیان ایک گلی پر سیدھا چلتے چلتے کھُلے بازار تک پہنچ جاتا جہاں کی رونق اور گہما گہمی اُسے اچھی لگتیں۔ مگر ایک دن نہ جانے کیوں وہ پرانے مکانوں کی درمیانی گلی پر چلتے چلتے بازار سے پہلے ایک خاص مقام پر بائیں جانب مڑ گیا تھا۔ اور پھر تھوڑی ہی دُور اُسے وہ کوڑے کا وسیع ڈھیر نظر آیا تھا جہاں اب وہ روزانہ جاتا تھا۔ اِسی کوڑے کے ڈھیر پر اُسے وہ دونوں کھیلتے ہوئے ملے تھے جن سے اب وہ روزانہ کھیلنے جاتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ، ننگے پاؤں، معصوم چہرے، شرارتی آنکھیں۔ پہلے دن تو وہ اُنہیں دُور سے ہی دیکھتا رہا۔ وہ کبھی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے کوڑے کو کریدتے اور اُس میں سے ملنے والی اشیاء اپنی بڑی بڑی نیلی بوریوں میں ڈالتے (بوریاں جو اُن سے بھی بڑی معلوم ہوتی تھیں اور جنہیں جب وہ کمر پر لادتے تو پوری نہ اٹھتیں اور زمیں پر گِھسٹتی رہتیں)، اور کبھی سب کچھ چھوڑ کر کھیل کود میں لگ جاتے، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے، یا کسی ڈبے کو گیند بنا کر کھیلنے لگتے۔ اُن کے ایک دوسرے کو بار بار پکارنے سے اُسے یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ نسبتا لمبے قد مگر چھوٹے بالوں والا جمیل ہے، اور چھوٹی سی چادر سر پر اوڑھنے والی جمیلہ ہے (یہ چادر جو جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی کبھی سرکتی سرکتی جمیلہ کے کندھوں پر آ جاتی اور کبھی کھیل کے دوران بالکل ہی زمین پر پڑی ہوتی، تب اُس کے لمبے بھورے بال صاف نظر آتے)۔ پہلے دن اُسے یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ دونوں کام اور کھیل کے بیچ کنکھیوں سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دوسرے دن سے وہ اُن کے ساتھ کھیلنے لگا تھا۔
پھر وہ دن بھی آیا جب اُس نے اُنہیں لڑتے دیکھا۔
اُس دن جمیل کو کوڑے کے ڈھیر میں خراب انگوروں کا ایک گچھا ملا تھا جن میں ایک دانہ بالکل صاف تھا۔ جمیل اِس صاف دانے کو دیکھ کر خوشی سے اچھلا تھا اور جمیلہ اُس کی طرف بھاگی تھی۔ اپنے انگور کے دانے کو بچانے کے لیے جمیل نے جمیلہ کو دھکا دیا تھا۔ وہ منہ کے بل گری تھی اور بہت زور سے روئی تھی۔ جمیل گچھا چھوڑ کر جمیلہ کی طرف بھاگا تھا اور پھر اپنے پھٹے ہوئے کُرتے کے کونے سے اُس نے جمیلہ کے ہونٹ سے بہتے خون کو روکا تھا اور اپنے ہاتھ سے جمیلہ کو انگور کا دانہ کھلایا تھا۔ دانہ کھا کر جمیلہ اپنا درد بھول گئی تھی اور اُس کے ننھے چہرے پر ایک خاص تازگی آ گئی تھی۔ یہ جھگڑا، یہ خون، یہ تازگی اُس نے اُن دونوں سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر دیکھے تھے۔ اور شاید اسی لیے اگلے دن گھر سے نکلتے ہوئے اُس نے ایک ایسا کام کیا تھا جو اُس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اُس نے اپنے ہی گھر سے چوری کی تھی۔ اور پھر کرتا چلا گیا تھا۔ مہمان خانے میں چھوٹی میز پر دھری پھلوں کی ٹوکری سے انگوروں کا ایک گچھا غائب کرتا اور اُن دونوں کو لا دیتا۔ تازہ انگور کھا کر وہ بہت خوش ہوتے۔ دیوانہ وار اچھلتے، دوڑتے اور کھیلتے۔ ہنستے ہنستے اُن کے چہرے سُرخ ہو جاتے۔ اُس نے ایسا سرخ رنگ اِس سے پہلے کچھ پودوں پر پتوں کے بیچ جھومتے دیکھا تھا۔
چوری، کھیل، اور گھر واپسی، یہ سلسلہ اب تک بغیر کسی مداخلت اور روک ٹوک کے چلتا رہا تھا۔ مگر آج ہوا میں جا بجا بکھرا کچھ اور ہی پیغام تھا۔ اور اُس کی سونگھنے کی حِس اُسے خبردار کر چکی تھی۔
گھر پہنچتے ہی بڑی مالکن اُس پر برس پڑیں۔ چھوٹے مالک نے اُس کا پیچھا کیا تھا اور گھر آ کر سب کچھ بتا دیا تھا۔ ٹونی نے پہلے تو دُم ہلا ہلا کر اور ہلکی آواز میں بھونک کر بڑی مالکن کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ پھر نیم ندامت اور نیم خوف کے عالم میں گلے کے اندر ہی اندر غراتا ہوا اُن کے سامنے فرش پر بیٹھ گیا۔ مگر بڑی مالکن کا غصہ کم نہ ہوا اور انہوں نے ڈانٹتے ڈانٹتے اُسے پٹّے سے پکڑ کر ایک زنجیر سے باندھ دیا۔ اِس سے پہلے اُسے بہت کم اِس زنجیر سے باندھا گیا تھا۔ کئی دن تک اُس نےاِس مصیبت سے جان چھڑانے کی دیوانہ وار کوشش کی اور بھونک بھونک کر شور مچاتا رہا   –جمیل اور جمیلہ انگوروں پر لڑ رہے ہوں گے، جمیلہ گر جائے گی، اُس کے ہونٹ سے خون نکلے گا، درد ہو گا، وہ روئے گی۔ مگر کسی نے اُس کی طرف توجہ نہ دی اور دھیرے دھیرے اُس کا شور کم ہونے لگا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب وہ اُن دونوں کو مکمل طور پر بھول گیا۔ اب وہ صرف گھر کے چھوٹے مالکوں کے ساتھ کھیلنے لگا تھا۔ اب باہر کوڑے کے ڈھیر پر پلتے، کھیلتے، لڑتے، اور خراب انگوروں میں صاف دانے تلاش کرتے جمیل اور جمیلہ کا خیال اُسے بالکل نہیں ستاتا تھا۔ اب وہ انسانوں کے طور طریقے سیکھ چُکا تھا۔

٭٭٭

Friday, 20 January 2017

Sultan Mahmood Ghaznavi Aur Aik Chor A Beautiful urdu Short Story

 سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں شہر میں چوریاں زیادہ ہونے لگیں تو چوروں کو پکڑنے کے لئے شاہ نے یہ تدبیر کی کہ شاہی لباس اتار کر چوروں کا سا پھٹا پرانا لباس پہن لیا اور شہر میں گشت کرنے لگے۔ ایک جگہ دیکھا کہ بہت سے چور اکھٹے بیٹھے ہیں۔ بادشاہ بھی وہاں جاکر بیٹھ گیا۔
 چوروں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ بادشاہ نے کہا کہ میں بھی تم ہی جیسا ایک آدمی ہوں۔ چوروں نے سمجھا کہ یہ بھی کوئی چور ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم لوگ ماہرینِ فن ہیں، کوئی عام چور نہیں ہیں، تم اپنا کوئی ہنر بتاؤ۔ اگر تمھارے اندر کوئی ہنر ہوگا تو تمھیں شریک کریں گے ورنہ نہیں۔بادشاہ نے کہا: آپ لوگ کیوں گھبراتے ہیں؟آپ لوگوں میں چوری کی جو صفت،ہنر اور فن ہے میرا ہنر اگر اس سے زیادہ پانا تو مجھے شریک کرنا ورنہ بھگادینا۔ چوروں نے کہا کہ اچھا اپنا ہنر بتاؤ۔ بادشاہ نے کہا کہ میں بعد میں بتاؤں گا پہلے تم لوگ اپنا ہنر بیان کرو۔ایک چور نے کہا کہ میرے اندر یہ فن ہے کہ میں اونچی سے اونچی دیوار پھاند کر مکان میں داخل ہو جاتا ہوں، چاہے بادشاہ کا قلعہ ہی کیوں نہ ہو۔دوسرے نہ کہا کہ میری ناک میں یہ خاصیت ہے کہ جہان خزانہ مدفون ہوتا ہے، میں مٹی سونگھ کر خزانہ بتا دیتا ہوں کہ یہاں خزانہ ہے۔ جیسے مجنوں کو خبر نہیں تھی کہ لیلی کی قبر کہاں ہے۔قبرستان جا کر ہر قبر کو سونگھا ،جب لیلی کی قبر کی مٹی سونگھی تو بتا دیا کہ لیلی یہاں ہے۔ ؎
ہمچو مجنوں بو کنم ہر خاک را
خاکِ لیلی را بیا بم بے خطا
 مولانا فرماتے ہیں کہ جو مولی کے عاشق ہیں وہ بھی مثل مجنوں کے ہر مٹی کو سونگھتے ہیں اورجس خاک میں مولی ہوتا ہے تو وہ سونگھ کر بتا دیتے ہیں کہ اس کے قلب میں مولی ہے۔ اللہ کے عاشقین اللہ والوں کے چہرہ سے ،ان کی آنکھوں سے، ان کی گفتگو سے پتہ پا جاتے ہیں کہ یہ دل صاحبِ نسبت ہے۔تیسرے چور نے کہا کہ میرے بازو میں ایسی طاقت ہے کہ چاہے کتنی ہی موٹی دیوار ہو میں گھر میں گھسنے کے لئے اس میں سوراخ کر دیتا ہوں۔چوتھے نے کہا کہ میں ماہرِ حساب ہوں،پی ایچ ڈی میتھمیٹکس (Mathematics)ہوں۔ کتنا ہی بڑا خزانہ ہو چند سیکنڈ میں حساب لگا کر تقسیم کر دیتا ہوں۔ پانچویں نے کہا کہ میرے کانوں میں ایسی خاصیت ہے کہ میں کتے کی آواز سن کر بتا دیتا ہوں کہ کتا کیا کہہ رہا ہے۔ چھٹے نے کہا کہ میری آنکھوں میں یہ خاصیت ہے کہ جس کو اندھیری رات میں دیکھ لیتا ہوں دن میں اس کو پہچان لیتا ہوں۔
 اب سب چورو ں نے بادشاہ سے پوچھا کہ اے چور بھائی! تمھارے اندر کیا خاص بات ہے ؟ شاہ محمود نے کہا کہ بھئی میری داڑھی میں ایک خاصیت ہے کہ ؎
مجرماں را چوں بہ جلاداں دہند
چوں بجنبد ریش من ایشان رہند
 جب مجرمین کو پھانسی کے لئے جلادوں کے حوالہ کر دیاجاتا ہے اس وقت اگر میری داڑھی ہل جاتی ہے تو مجرمین پھانسی کے پھندے سے چھوٹ جاتے ہیں۔ یہ سن کر چور مارے خوشی کے کہنے لگے کہ ؎
قوم گفتندش کہ قطب ما توئی
روز محنت ہا خلاص ما توئی
 آپ تو چوروں کے قطب ہیں۔ جب ہم کسی مصیبت میں پھنسیں گے تو آپ ہی کے ذریعہ ہم کو خلاصی ملے گی۔ لہذا فیصلہ ہو ا کی آج بادشاہ کے یہاں چوری کی جائے کیونکہ آج سب اراکین نہایت پاور فل ہیں اور مصیبت سے چھڑانے والا داڑھی والا بھی ساتھ ہے۔لہذا سب بادشاہ کے محل کی طرف چل پڑے۔ راستہ میں کتا بھونکا تو کتے کی آواز پہچاننے والے نے کہا کہ کتا کہہ رہا ہے کہ بادشاہ تمھارے ساتھ ہے لیکن چور پھر بھی چوری کے ارادے سے کیوں نہ باز آئے ؟ بوجہ لالچ اور طمع کے، کیونکہ لالچ آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور عقل و ہوش کو اڑا دیتا ہے جس سے ہنر پوشیدہ ہو جاتا ہے۔مو لانا رومی فرماتے ہیں ؎
صد حجاب از دل بسوئے دیدہ شد
چوں غرض آمد ہنر پوشید ہ شد
 ہر گناہ اسی طرح ہوتا ہے کہ شہوت اور لالچ آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے ،پھر بُرے بھلے کی تمیز نہیں رہتی۔ جانتا ہے کہ یہ آنکھوں کا زنا ہے لیکن مغلوب ہو کر گناہ کرتا ہے، اسی لئے نے اسباب گناہ سے دوری کا حکم فرمایا تاکہ لالچ پیدا ہو۔
 لہذا بادشاہ کے یہاں چوری ہوئی۔چوروں نے خزانہ لوٹ لیا اور جنگل میں بیٹھ کر ماہرحساب نے سب کا حصہ لگا کر چند منٹ میں تقسیم کردیا۔ بادشاہ نے کہا: سب لوگ اپنا اپنا پتہ لکھوادیں تاکہ آئندہ جب چوری کرنا ہو تو ہم لوگ آسانی سے جمع ہو جائیں۔ اس طرح بادشاہ نے سب کا پتہ نوٹ کر لیا۔
 اگلے دن شاہ نے عدالت لگائی اور پولیس والوں کو حکم دیا کہ سب کو پکڑ لاؤ۔جب سب چور ہتھکڑیاں ڈال کر حاضر کئے گئے تو بادشاہ نے سب کو پھانسی کا حکم دے دیا اور کہا کہ اس مقدمہ میں کسی گواہ کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ سلطان خود وہاں موجود تھا۔ اسی طرح قیامت کے دن اللہ تعالی کو کسی گواہ کی ضرورت نہیں کیونکہ
Īوَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْĨ
[
الحدید:4]
 جب تم بد کاریاں کررہے تھے تومیں تو تمھارے ساتھ موجود تھا، لہذا اللہ تعالی کو کسی گواہ کی حا جت نہیں۔ پھر قیامت کے دن جو اعضاء کی گواہی ،زمین کی گواہی ،فرشتوں کی گواہی،اور صحیفہ اعمال کی جو گواہی پیش کی جائی گی وہ بندوں پر حجت تام کرنے کے لئے ہوگی۔
 جب چھ کے چھ چور پھانسی کے تختہ پر کھڑے ہو گئے تو وہ چور جس نے بادشاہ کو دیکھا تھا اس نے پہچان لیا کہ یہ وہی بادشاہ جو رات کو ہمارے ساتھ تھا۔ وہ تختہ دار سے چِلاّیا کہ حضور کچھ دیر کو ہماری جانوں کو امان دی جائے ،میں آپ سے تنہائی میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔بادشاہ نے کہا: ٹھیک ہے،تھوڑی دیر کے لئے پھانسی کو موقوف کر دو اور اس کو میرے پاس بھیج دو۔ چور نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ
ہر یکے خاصیتے خود وا نمود
اے بادشاہ! ہم میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا ہنر دکھا دیا لیکن
ایں ہنر ہا جملہ بدبختی فزود
 ہمارے سب کے سب ہنر جن پر ہم کو ناز تھا انہوں نے ہماری بدبختی کو اور بڑھادیا کہ آج ہم تختہ دار پر ہیں۔ اے بادشاہ!میں نے آپ کو پہچان لیا ہے، آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ جب مجرموں کو تختہ دار پر چڑھایا جاتا ہے اس وقت غایتِ کرم سے اگر میری داڑھی ہل جاتی ہے تو مجرمین کو پھانسی سے نجات پاجاتے ہیں۔لہذا اپنے ہنر کا ظہور فرمایئے تاکہ ہماری جان خلاصی پا جائے۔ مولانا رومی فرماتےہیں کہ سلطان محمود نے کہا تمھارے کمالاتِ ہنر نے تو تمھاری گردنوں کو مبتلاءِ قہر کردیا تھا لیکن یہ شخص جو سلطان کا عارف تھا اس کی چشم ِسلطان شناس کے صدقہ میں میں تم سب کو رہا کرتا ہوں
 اس قصہ کو بیان فرما کر مولانا رومی فرماتے ہیں کہ دنیا میں ہر شخص اپنے ہُنر پر ناز کررہا ہے ،بڑے بڑے اہل ہنر اپنی بد مستیوں میں مست اور خدا سے غافل ہیں لیکن قیامت کے دن ان کےیہ ہنر کچھ کام نہ آ ئیں گے اور ان کو مبتلائے قہر و عذاب کردیں گے لیکن ؎
جز مگر خاصیت آں خوش حواس
کہ بشب بود چشم او سلطاں شناس
 جن لوگوں نے اس دنیا کے اندھیرے میں اللہ کو پہچان لیا ،نگاہِ معرفت پیدا کر لی قیامت کے دن یہ خود بھی نجات پائیں گے اور ان کی سفارش گنہگاروں کے حق میں قبول کی جائے گی۔

Saturday, 7 January 2017

Aik Chor Aur Aam Ka Bagh : A Famous Urdu Short Story

                   ایک چور ایک باغ میں گھس گیا اور آم کے درخت پر چڑھ کر آم کھانے لگا اتفاقًا باغبان بھی وہاں آپہنچا اور چور سے کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوبے شرم یہ کیا کر رہے ہو؟ چور مسکرایا اور بولا ارے بے خبر یہ باغ اللہ کا ہے اور میں اللہ کا بندہ ہوں ، وہ مجھے کھلا رہا ہے اور میں کھا رہا ہوں ، میں تو اسکا حکم پورا کر رہا ہوں ، ورنہ تو پتہ بھی اس کے حکم کے بغیر حرکت نہیں کر سکتا باغبان نے چور سے کہا جناب! آپ کا یہ وعظ سن کر دل بہت خوش ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا نیچے تشریف لائیے تاکہ میں آپ جیسے مومن باللہ کی دست بوسی کرلوں ۔۔۔۔ سبحان اللہ اس جہالت کے دور میں آپ جیسے عارف کا دم غنیمت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو مدت کے بعد توحید ومعرفت کا یہ نکتہ ملا ہے جو کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا ہی کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بندے کا کچھ بھی اختیار نہیں ۔۔۔۔۔۔ قبلہ ذرا نیچے تشریف لائیے ۔۔۔۔۔۔ چور اپنی تعریف سن کر پھولا نہ سمایا اور جھٹ سے نیچے اتر آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ نیچے آیا تو باغبان نے اسکو پکڑ لیا اور رسی کے ساتھ درخت سے باندھ دیا ۔ پھر خوب مرمت کی ، آخر میں جب ڈنڈا اٹھایا تو چور چلا اٹھا ، کے ظالم کچھ تو رحم کرو ، میرا اتنا جرم نہیں جتنا تو نے مجھے مار لیا ہے ۔ باغبان نے ہنس کر اس سے کہا کہ
جناب ابھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے ، اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کر سکتا ، اگر پھل کھانے والا اللہ کا بندہ تھا تو مارنے والا بھی تو اللہ کا بندہ ہے اور اللہ کے حکم سے ہی مار رہا ہے کیونکہ اس کے حکم کے بغیر تو پتہ بھی نہیں ہلتا چور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدارا مجھے چھوڑ دے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل مسئلہ میری سمجھ میں آگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ بندے کا بھی کچھ اختیار ہے باغبان نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسی اختیار کی وجہ سے اچھے یا برے کام کا ذمہ داربھی


                      (حکایت رومی) 

Labels

Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) Aleppo (2) Allama Muhammad Iqbal (82) Answer (4) Auliya Allah (2) Aurat (6) Baa ki kahawtain (18) Bahadur Shah Zafar (2) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) Children (2) China (2) College (3) DHRAAM (1) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) Divorce (10) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) Fatawa (14) Finance (7) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) Hadisa (2) Hajj (3) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) Ibn e Insha (87) Imran Sereis Novels (8) India (3) Intzar hussain (2) Ishq (3) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) Jihad (2) Khawaja Haider Ali aatish (2) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) Letter (2) Love (5) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) Menses (3) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) Mustahabbat (3) Novels (15) Novels Books (11) PROVERBS (370) Pakistan (4) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) Question (3) Qurbani (2) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) Sabolate Aager (2) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) Sawal (3) School (3) Shakeel Badauni (2) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) UMRAH (3) URDU ENGLISH PROVERBS (42) URDU PROVERBS (202) University (2) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) Valentine Day (9) Wasi Shah (28) Wudu (2) Zakat (3) aa ki kahawtain (13) afzal rao gohar (4) alama semab akbar abadi (32) alif ki kahawtain (8) andra warma (2) anwar masuod (2) aziz ajaz (3) babu gopinath (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) chor (5) daal ki kahawtain (10) dhal ki kahawtain (2) dil (2) download (7) elam (5) eman (3) faraiz (6) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) hadisain (223) halaku khan (2) haya (4) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) islamic (319) jeem ki kahawtain (13) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) king (6) laam ki kahawtain (4) maa (9) marriage (2) meem ki kahawtain (12) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) muskrahat (2) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) pa ki kahawtain (8) parveen shakir (50) poetry (1309) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) ra ki kahawtain (3) sabaq aamoz (55) saghar Siddiqui (226) saghar nizami (2) saifuddin saif (2) sauod usmani (2) seen ki kahawtain (10) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) syed moeen bally (2) ta ki kahawtain (8) toba (4) udru (14) urdu (239) urdu short stories (151) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) wow ki kahawtain (2) writers (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) zina (10)