Showing posts with label king. Show all posts
Showing posts with label king. Show all posts

Sunday, 2 April 2017

مختصر اردو کہانیاں Short Urdu Stories King's Court




ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ، ﭼﻮﻧﮑﮧ ﺳﺮﺩﯼ ﮐﺎ ﺩﻥ ﺗﮭﺎﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﮐﮭﻠﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ .
ﺳﺐ۔ﺧﻮﺍﺹ  ﻋﻮﺍﻡ ﺻﺒﺢ ﮐﯽ ﺩﮬﻮﭖ ﻣﯿﮟ
بیٹھے تھے۔ 

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺗﺨﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯﺍﯾﮏ ﻣﯿﺰ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮﮐﭽﮫ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺍﺷﯿﺎ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔
ﻭﺯﯾﺮ ، ﻣﺸﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﺍ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺳﺐ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﯾﮕﺮ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ۔
.
ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮯ ﮐﯽﺍﺟﺎﺯﺕ ﭼﺎﮨﯽ ۔
ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻣﻞ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ " ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺩﻭ ﺍﺷﯿﺎﺀﮨﯿﮟ ، ﻣﯿﮟ ﮨﺮﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭﺍﭘﻨﯽﺍﺷﯿﺎﺀ ﮐﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕﺟﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﺎ ، ﺗﻤﺎﻡ ﮨﺎﺭﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧﮐﺎﻣﺮﺍﻥ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﮨﻮ ﮐﺮﻟﻮﭨﺘﺎ ﮨﻮﮞ "

ﺍﺏ ﺁﭖ ﮐﮯﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ " ﮐﯿﺎ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﮨﯿﮟ ؟ "ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ کر ﺩﯾﮟ ۔
.
ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﺩﮐﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ﺟﺴﺎﻣﺖ، ﯾﮑﺴﺎﮞ ﺭﻧﮓ، ﯾﮑﺴﺎﮞ ﭼﻤﮏ ﮔﻮﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﻧﻘﻞ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﺗﻮ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﯿﮟ . ﺗﻮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﮨﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﯿﮟ ﻣﺨﺘﻠﻒ ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﮨﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﮯ ﺷﯿﺸﮧ ۔

ﺑﻈﺎﮨﺮ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ، ﮐﻮﺋﯽ ﺁﺝ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺳﮑﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﮨﯿﺮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺷﯿﺸﮧ ۔ ﮐﻮﺉ ﺟﺎﻧﭻ ﮐﺮ ﺑﺘﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﯿﺮﺍ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﮐﻮﻧﺴﺎ ﺷﯿﺸﮧ ؟ 

ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺭ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﮨﯿﺮﺍ ﺁﭖ ﮐﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺷﺮﻁ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮨﯿﺮﮮ ﮐﯽ ﺟﻮ ﻗﯿﻤﺖ ﮨﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﺭﻗﻢ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﻄﻮﺭ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﺟﯿﺖ ﮐﺮﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ۔

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺳﮑﺘﺎ ، ﻭﺯﯾﺮ ﻭ ﻣﺸﯿﺮ ﺑﻮﻟﮯ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﭻ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺳﺐ ﮐﻮ ﮔﻤﺎﻥ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺷﮑﺴﺖ ﮨﯽ ﻣﻘﺪﺭ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺷﮑﺴﺖ ﭘﺮ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﻟﺖ ﺗﮭﺎ، ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﻋﺎﯾﺎ ﺑﮩﺖ ﺫﮨﯿﻦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ُ ﮐﯽ ُﺒﮑﯽ ﮨﻮﺗﯽ ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔

ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﮨﻠﭽﻞ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﺍﯾﮏ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﺷﺨﺺ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻻﭨﮭﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﭨﮭﺎ ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﭼﻠﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻨﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮟ ۔

ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﮩﺎﺭﮮ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﺭﺧﻮﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍﺋﺸﯽ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺫﮨﺎﻧﺖ ﮐﻮﺟﺎﻧﭻ ﺳﮑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﻧﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﺗﻮ ﮨﺎﺭﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯽ ﮨﯿﮟ ۔

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺣﺮﺝ ﮨﮯ ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﭼﮭﻮ ﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﮮ ﺩﯼ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮔﯿﺎ ، ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﮨﯿﺮﺍ ﮨﮯ ؟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺷﯿﺸﮧ؟ ﯾﮩﯽ ٓﭘﮑﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ۔

ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮨﯿﺮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺷﯿﺸﮧ ۔

ﺟﻮ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﺗﻨﮯ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﺳﮯ ﺟﯿﺖ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭﮐﮩﺎ "ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ .. ٓﭘﮑﻮ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﻮ ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺏ ﯾﮧ ﮨﯿﺮﺍ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﮨﻮﺍ "

ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮒ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺻﻞ ﮨﯿﺮﺍ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﻧﮯ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﺱ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ۔
ﺍﺱ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﯿﺪﮬﯽ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺩﮬﻮﭖ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺳﺐ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ ﮐﺮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ۔ ﺟﻮ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﺭﮨﺎ ﻭﮦ ﮨﯿﺮﺍ ﺟﻮ ﮔﺮﻡ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺷﯿﺸﮧ

ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺳﺨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮑﻞ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﻭﮦ ﺷﯿﺸﮧ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺗﻤﺎﻡ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﮨﯿﺮﮮ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﮨﮯ۔

Monday, 27 March 2017

مختصر اردو کہانیاں Short Urdu Stories A King



کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا جس نے دس جنگلی کتے پالے ہوئے تھے, اس کے وزیروں میں سے جب بھی کوئی وزیر غلطی کرتا بادشاہ اسے ان کتوں کے آگے پھنکوا دیتا کتے اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر مار دیتے-
ایک بار بادشاہ کے ایک خاص وزیر نے بادشاہ کو غلط مشورہ دے دیا جو بادشاہ کو بلکل پسند نہیں آیا اس نے فیصلہ سنایا کہ وزیر کو کتوں کے آگے پھینک دیا جائے-
وزیر نے بادشاہ سے التجا کی کہ حضور میں نے دس سال آپ کی خدمت میں دن رات ایک کئے ہیں اور آپ ایک غلطی پر مجھے اتنی بڑی سزا دے رہے ہیں, آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن میری بےلوث خدمت کے عوض مجھے آپ صرف دس دنوں کی مہلت دیں پھر بلاشبہ مجھے کتوں میں پھنکوا دیں-
بادشاہ یہ سن کر دس دن کی مہلت دینے پر راضی ہو گیا-
وزیر وہاں سے سیدھا رکھوالے کے پاس گیا جو ان کتوں کی حفاظت پر مامور تھا اور جا کر کہا مجھے دس دن ان کتوں کے ساتھ گزارنے ہیں اور ان کی مکمل رکھوالی میں کرونگا, رکھوالا وزیر کے اس فیصلے کو سن کر چونکا لیکن پھر اجازت دے دی-
ان دس دنوں میں وزیر نے کتوں کے کھانے پینے, اوڑھنے بچھونے, نہلانے تک کے سارے کام اپنے ذمے لیکر نہایت ہی تندہی کے ساتھ سر انجام دیئے-
دس دن مکمل ہوئے بادشاہ نے اپنے پیادوں سے وزیر کو کتوں میں پھنکوایا لیکن وہاں کھڑا ہر شخص اس منظر کو دیکھ کر حیران ہوا کہ آج تک نجانے کتنے ہی وزیر ان کتوں کے نوچنے سے اپنی جان گنوا بیٹھے آج یہی کتے اس وزیر کے پیروں کو چاٹ رہے ہیں-
بادشاہ یہ سب دیکھ کر حیران ہوا اور پوچھا کیا ہوا آج ان کتوں کو ؟
وزیر نے جواب دیا, بادشاہ سلامت میں آپ کو یہی دکھانا چاہتا تھا میں نے صرف دس دن ان کتوں کی خدمت کی اور یہ میرے ان دس دنوں میں کئے گئے احسانات بھول نہیں پا رہے, اور یہاں اپنی زندگی کے دس سال آپ کی خدمت کرنے میں دن رات ایک کر دیئے لیکن آپ نے میری ایک غلطی پر میری ساری زندگی کی خدمت گزاری کو پس پشت ڈال دیا...
بادشاہ کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا, اس نے وزیر کو اٹھوا کر مگرمچھوں کے تالاب میں پھنکوا دیا-
نوٹ: جب مینیجمنٹ ایک بار فیصلہ کر لے کہ آپ کی بجانی ہے تو بس بجانی ہے

Saturday, 21 January 2017

Aik Tha Badshah " A Famous Urdu Short Story

بادشاہ کا موڈ اچھا تھا‘ وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا ”تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے“ وزیر شرما گیا‘ اس نے منہ نیچے کر لیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”تم گھبرا مت‘ بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتا“ وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا ”حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں‘ میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا“ وزیر خاموش ہو گیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟“
               وزیر نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور عاجزی سے بولا ”بادشاہ سلامت یہ کیسے ممکن ہے‘ میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں“ بادشاہ نے فوراً سیکرٹری کو بلایا اور اسے دو احکامات لکھنے کا حکم دیا‘ بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا‘ دوسرے حکم میں بادشاہ نے وزیر کا سر قلم کرنے کا آرڈر دے دیا‘ وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا‘ بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ”تمہارے پاس تیس دن ہیں‘ تم نے ان 30 دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہیں‘ تم کامیاب ہو گئے تو میرا دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گا اور تمہیں آدھی سلطنت مل جائے گی اور اگر تم ناکام ہو گئے تو پہلا حکم خارج سمجھا جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق تمہارا سر اتار دیا جائے گا“ وزیر کی حیرت پریشانی میں بدل گئی‘ بادشاہ نے اس کے بعد فرمایا ”میرے تین سوال لکھ لو“ وزیر نے لکھنا شروع کر دیا‘ بادشاہ نے کہا ”انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟“
                       وہ رکا اور بولا ”دوسرا سوال‘ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے“ وہ رکا اور پھر بولا”تیسرا سوال‘ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے“ بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور بآواز بلند فرمایا ”تمہارا وقت شروع ہوتا ہے اب“۔ وزیر نے دونوں پروانے اٹھائے اور دربار سے دوڑ لگا دی‘ اس نے اس شام ملک بھر کے دانشور‘ ادیب‘ مفکر اور ذہین لوگ جمع کئے اور سوال ان کے سامنے رکھ دیئے‘ ملک بھر کے دانشور ساری رات بحث کرتے رہے لیکن وہ پہلے سوال پر ہی کوئی کانسینسس ڈویلپ نہ کر سکے‘ وزیر نے دوسرے دن دانشور بڑھا دیئے لیکن نتیجہ وہی نکلا‘ وہ آنے والے دنوں میں لوگ بڑھاتا رہا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر دارالحکومت سے باہر نکل گیا‘ وہ سوال اٹھا کر پورے ملک میں پھرا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا‘ وہ مارا مارا پھرتا رہا‘ شہر شہر‘ گاں گاں کی خاک چھانتا رہا‘ شاہی لباس پھٹ گیا‘ پگڑی ڈھیلی ہو کر گردن میں لٹک گئی‘ جوتے پھٹ گئے اور پاں میں چھالے پڑ گئے‘ یہاں تک کہ شرط کا آخری دن آ گیا‘ اگلے دن اس نے دربار میں پیش ہونا تھا‘ وزیر کو یقین تھا یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے‘ کل اس کی گردن کاٹ دی جائے گی اور جسم شہر کے مرکزی پُل پر لٹکا دیا جائے گا‘ وہ مایوسی کے عالم میں دارالحکومت کی کچی آبادی میں پہنچ گیا‘ آبادی کے سرے پر ایک فقیر کی جھونپڑی تھی‘ وہ گرتا پڑتا اس کٹیا تک پہنچ گیا‘ فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا‘ ساتھ ہی دودھ کا پیالہ پڑا تھا اور فقیر کا کتا شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ دودھ پی رہا تھا‘ فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی‘ قہقہہ لگایا اور بولا ”جناب عالی! آپ صحیح جگہ پہنچے ہیں‘ آپ کے تینوں سوالوں کے جواب میرے پاس ہیں“ وزیر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا ”آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا‘ میں کون ہوں اور میرا مسئلہ کیا ہے“ فقیر نے سوکھی روٹی کے ٹکڑے چھابے میں رکھے‘ مسکرایا‘ اپنا بوریا اٹھایا اور وزیر سے کہا”یہ دیکھئے‘ آپ کو بات سمجھ آ جائے گی“ وزیر نے جھک کر دیکھا‘ بوریئے کے نیچے شاہی خلعت بچھی تھی‘ یہ وہ لباس تھا جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزراءکو عنایت کرتا تھا‘ فقیر نے کہا ”جناب عالی میں بھی اس سلطنت کا وزیر ہوتا تھا‘ میں نے بھی ایک بار آپ کی طرح بادشاہ سے شرط لگانے کی غلطی کر لی تھی‘نتیجہ آپ خود دیکھ لیجئے“ فقیر نے اس کے بعد سوکھی روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور دوبارہ پانی میں ڈبو کر کھانے لگا‘ وزیر نے دکھی دل سے پوچھا ”کیا آپ بھی جواب تلاش نہیں کر سکے تھے“ فقیر نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”میرا کیس آپ سے مختلف تھا‘ میں نے جواب ڈھونڈ لئے تھے‘ میں نے بادشاہ کو جواب بتائے‘ آدھی سلطنت کا پروانہ پھاڑا‘ بادشاہ کو سلام کیا اور اس کٹیا میں آ کر بیٹھ گیا‘ میں اور میرا کتا دونوں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں“ وزیر کی حیرت بڑھ گئی لیکن یہ سابق وزیر کی حماقت کے تجزیئے کا وقت نہیں تھا‘ جواب معلوم کرنے کی گھڑی تھی چنانچہ وزیر اینکر پرسن بننے کی بجائے فریادی بن گیا اور اس نے فقیر سے پوچھا ”کیا آپ مجھے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں“ فقیر نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دیا ”میں پہلے دو سوالوں کا جواب مفت دوں گا لیکن تیسرے جواب کےلئے تمہیں قیمت ادا کرنا ہو گی“ وزیر کے پاس شرط ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا‘ اس نے فوراً ہاں میں گردن ہلا دی‘فقیر بولا ”دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے‘ انسان کوئی بھی ہو‘ کچھ بھی ہو‘ وہ اس سچائی سے نہیں بچ سکتا“ وہ رکا اور بولا ”انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے‘ ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کر اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے“ فقیر کے دونوں جواب ناقابل تردید تھے‘ وزیر سرشار ہو گیا‘ اس نے اب تیسرے جواب کےلئے فقیر سے شرط پوچھی‘ فقیر نے قہقہہ لگایا‘ کتے کے سامنے سے دودھ کا پیالہ اٹھایا‘ وزیر کے ہاتھ میں دیا اور کہا ”میں آپ کو تیسرے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک آپ یہ دودھ نہیں پیتے“ وزیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا ‘ اس نے نفرت سے پیالہ زمین پر رکھ دیا‘ وہ کسی قیمت پر کتے کا جوٹھا دودھ نہیں پینا چاہتا تھا‘ فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا ”اوکے تمہارے پاس اب دو راستے ہیں‘ تم انکار کر دو اور شاہی جلاد کل تمہارا سر اتار دے یا پھر تم یہ آدھ پا دودھ پی جا اور تمہاری جان بھی بچ جائے اور تم آدھی سلطنت کے مالک بھی بن جا‘ فیصلہ بہرحال تم نے کرنا ہے“ وزیر مخمصے میں پھنس گیا‘ ایک طرف زندگی اور آدھی سلطنت تھی اور دوسری طرف کتے کا جوٹھا دودھ تھا‘ وہ سوچتا رہا‘ سوچتا رہا یہاں تک کہ جان اور مال جیت گیا اور سیلف ریسپیکٹ ہار گئیوزیر نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں دودھ پی گیا‘ فقیر نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میرے بچے‘ انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے‘ یہ اسے کتے کا جوٹھا دودھ تک پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ وہ سچ ہے جس نے مجھے سلطنت کا پروانہ پھاڑ کر اس کٹیا میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا‘ میں جان گیا تھا‘ میں جوں جوں زندگی کے دھوکے میں آں گا‘ میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاں گا اور میں موت کو جتنا فراموش کرتا رہوں گا‘ میں اتنا ہی غرض کی دلدل میں دھنستا جاں گا اور مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کےلئے غرض کا غلیظ دودھ پینا پڑے گا لہٰذا میرا مشورہ ہے‘ زندگی کی ان تینوں حقیقتوں کو جان لو‘ تمہاری زندگی اچھی گزرے گی“ وزیر خجالت‘ شرمندگی اور خودترسی کا تحفہ لے کر فقیر کی کٹیا سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا‘ وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے احساس شرمندگی میں اضافہ ہو رہا تھا‘ اس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا‘ وہ اس احساس کے ساتھ محل کے دروازے پر پہنچا‘ اس کے سینے میں خوفناک ٹیس اٹھی‘ وہ گھوڑے سے گرا‘ لمبی ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔


سوالوں پر ضرور غور کرناچاہیے‘ یہ سوچنا چاہیے ہم لوگ کہیں زندگی کے دھوکے میں آ کر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے‘ ہم لوگ کہیں موت کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے‘ ہم کہیں اس کہانی کے وزیر تو نہیں بن گئے..

Labels

Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) Aleppo (2) Allama Muhammad Iqbal (82) Answer (4) Auliya Allah (2) Aurat (6) Baa ki kahawtain (18) Bahadur Shah Zafar (2) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) Children (2) China (2) College (3) DHRAAM (1) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) Divorce (10) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) Fatawa (14) Finance (7) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) Hadisa (2) Hajj (3) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) Ibn e Insha (87) Imran Sereis Novels (8) India (3) Intzar hussain (2) Ishq (3) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) Jihad (2) Khawaja Haider Ali aatish (2) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) Letter (2) Love (5) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) Menses (3) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) Mustahabbat (3) Novels (15) Novels Books (11) PROVERBS (370) Pakistan (4) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) Question (3) Qurbani (2) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) Sabolate Aager (2) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) Sawal (3) School (3) Shakeel Badauni (2) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) UMRAH (3) URDU ENGLISH PROVERBS (42) URDU PROVERBS (202) University (2) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) Valentine Day (9) Wasi Shah (28) Wudu (2) Zakat (3) aa ki kahawtain (13) afzal rao gohar (4) alama semab akbar abadi (32) alif ki kahawtain (8) andra warma (2) anwar masuod (2) aziz ajaz (3) babu gopinath (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) chor (5) daal ki kahawtain (10) dhal ki kahawtain (2) dil (2) download (7) elam (5) eman (3) faraiz (6) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) hadisain (223) halaku khan (2) haya (4) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) islamic (319) jeem ki kahawtain (13) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) king (6) laam ki kahawtain (4) maa (9) marriage (2) meem ki kahawtain (12) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) muskrahat (2) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) pa ki kahawtain (8) parveen shakir (50) poetry (1309) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) ra ki kahawtain (3) sabaq aamoz (55) saghar Siddiqui (226) saghar nizami (2) saifuddin saif (2) sauod usmani (2) seen ki kahawtain (10) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) syed moeen bally (2) ta ki kahawtain (8) toba (4) udru (14) urdu (239) urdu short stories (151) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) wow ki kahawtain (2) writers (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) zina (10)