لوگ
لے لیتے ہیں یونہی شمع پروانے کا نام
کچھ
نہیں ہے اس جہاں میں غم کے افسانے کا نام
شوخی
قد نگاراں میری صہبا کا وجود
مستی
چشم غزالاں میرے پیمانے کا نام
اس
کو کہتے ہیں غم تقدیر کی نیلام گاہ
ہے
زبان تشنگی میں اور مے خانے کا نام
مٹ
گئی بربادی دل کی شکایت دوستو
اب
گلستان رکھ لیا ہے میں نے ویرانے کا نام
پڑ
گیئں پیراہن صبح چمن پر سلوٹیں
یاد
آ کر رہ گی ہے خودی کی ایک شام
تیری
عصمت ہو کہ میرے ہنر کی چاندنی
وقت
کے بازار میں ہر چیز کے لگتے ہیں دام
دیکھے
ساغر کی آشفتہ نگاہی کا کمال
مستیاں
چھلکا رہا ہے ایک دیوانے کا نام
No comments:
Post a Comment