سانپ
پلتے ہیں آستینوں میں
چند
قطرے ہیں خون سائل کے
اب
شہنشاہ کے خزینوں میں
خیر
ہو آسماں ستاروں کی،
جگمگاتے
ہیں داغ سینوں میں
انقلاب
حیات کیا کہیے
آدمی
ڈھل گئے مشینوں میں
میرے
نغموں کا جی نہیں لگتا
ماہ
پاروں میں مہ جبینوں میں
جاؤ
اہل_خرد کی محفل میں
کیا
کرو گے جنوں نشینوں میں
موج
ساحل کو بڑھ کے چوم آئ
ہم
تڑپتے رہے سفینوں میں
کچھ
فرشتوں کا نام انساں ہے
میرے
احساس کے قرینوں میں
اب
شراروں کی فصل ہے ساغر
رنگ
اگتے تھے جن زمینوں میں
No comments:
Post a Comment