جادو نیا لفظوں کا جگانے نہیں آئی
کاغذ پہ کوئی پھول کھلانے نہیں آئی
صاحب میں ترے ناز اٹھانے نہیں آئی
بس دیکھنے آئی ہوں منانے نہیں آئی
حیرت ہے کہ ان شعبدہ بازوں میں بھی رہ کر
بے پَر کی کوئی بات اڑانے نہیں آئی
آئی ہوں ترے شہر کی گلیوں میں بھٹکنے
لیکن کوئی آواز لگانے نہیں آئی
نکلی ہوں کہ کچھ دشت نوردی کی ہوا لوں
میں عشق کی بارش میں نہانے نہیں آئی
آئی ہوں کہ اُس پھول سے پیمان تھا میرا
رسم و رہِ دنیا تو نبھانے نہیں آئی
ماہین مجھے اُس گلِ حیرت کی طلب تھی
ایسے ہی تو میں آئنہ خانے نہیں آئی
راشد ماہین
No comments:
Post a Comment