الف۔ کی کہاوتیں
(۹۶) اندھا بانٹے ریوڑیاں ،
اپنوں اپنوں کو دے
:
اندھا
آدمی صرف اپنے قریب کے لوگوں کو ہی
پہچانتا ہے چنانچہ اگر وہ ریوڑیاں بانٹے
گا تو اپنوں کو ہی دے گا۔ لہٰذا اگر کوئی
شخص کسی انعام یا احسان کو اپنے دوستوں
اور عزیزوں تک ہی محدود رکھے تو یہ
کہاوت کہی جاتی ہے۔
(۹۷) اندھوں میں
کانا راجا :
کم
اہلوں کے بیچ اگر کوئی شخص ایسا آ جائے جو
تھوڑی بہت قابلیت رکھتا ہو تو وہ ایسا ہی ہو گا جیسے اندھوں کے ملک میں
کوئی کانا آدمی راجا بن جائے کہ کم سے کم وہ دیکھ توسکتا ہے۔ یہ کہاوت ایسے
ہی وقت استعمال ہوتی ہے۔
(۹۸) اِن تِلوں تیل نہیں ہے
:
اگر تل
خراب ہوں تو کولہو میں پیل کر اِن سے تیل نہیں نکالا جا سکتا۔یہ کہاوت ایسے انسان پر صادق آتی
ہے جو ناکارہ ہو۔
(۹۹) اُنیس بیس کا فرق ہونا :
یعنی دو
چیزوں میں بہت ہی کم فرق ہونا۔
(۱۰۰) انگور
کھٹے ہیں :
یہ
کہاوت ایک لوک کہانی سے لی گئی ہے۔ ایک لومڑی نے انگور کی بیل پر انگور دیکھے تو
ان کو کھانے کے لالچ میں اس نے چاہا کہ کسی
طرح ان تک پہنچ جائے۔ بہت کودی اور اُچھلی لیکن انگوروں تک نہ پہنچ سکی۔ جب ہر طرح سے کوشش کر کے ہار
گئی تو کھسیانی ہو کر بولی کہ ’’اونھ! یہ انگور تو یوں بھی کھٹے ہیں۔ان کو کیا کھاؤں۔‘‘ چنانچہ اگر کوئی چیزکسی شخص کو ہزار کوشش پر بھی
نہ مل سکے اور وہ اس میں اپنے نفس کی تسکین
کے لئے کوئی فرضی برائی ڈھونڈ نکالے تو اس کہاوت کا استعمال کیا جاتا ہے۔
(۱۰۱) اندھے کی لکڑی ہے:
یعنی اکلوتا اور فرمانبردار بیٹا۔ جس طرح اندھے
کے لئے اس کی لاٹھی یا لکڑی کارآمد ہوتی ہے اسی طرح فرمانبردار بیٹا والدین کے لئے
نعمت ہے۔
It's irrelevant for 10th class
ReplyDelete