پ۔ کی کہاوتیں
(۱)
پاگل کے سر کیا سینگ ہوتے ہیں ؟ :
پاگل اپنی حرکات سے الگ پہچانا جاتا ہے۔ یہ فقرہ
طنزاً بولا جاتا ہے۔
( ۲) پانچ دو سات ہو گئے :
یعنی
آپس میں مل بیٹھے۔ یہ’’ نو دو گیارہ ہو گئے‘‘ کہاوت کا الٹا ہے۔ نو دو گیارہ
ہونے کے معنی بھاگ کھڑا ہونا ہیں جب کہ پانچ دو سات ہونے کے معنی گٹھ
جوڑ کر لینے کے ہیں۔
(۳) پانی پیجئے چھان کر اور پیر
کیجئے جان کر :
یعنی پانی پینے سے پہلے دیکھ لینا چاہئے
کہ صاف ہے یا نہیں اور کسی کو اپنا پیر و مرشد بنانے سے قبل جانچ پڑتا ل کر
لینی چاہئے کہ کس رتبہ کا آدمی ہے۔ایسا نہ کرنے میں نقصان کا خطرہ ہے۔ یہ کہاوت
تنبیہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
( ۴) پانی سے پہلے پل باندھ رہے ہیں
:
اس سے
پہلے کہ مسئلہ سر پر آ جائے اس کے علاج کی صورت کر رہے ہیں ۔ یہ دانشمندی کی
نشانی ہے۔پانی سر پر آ جائے تو اس وقت پل باندھنا کیا معنی رکھتا ہے؟
( ۵) پانچوں انگلیاں برابر
نہیں ہوتی ہیں :
جس طرح ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیاں
برابر نہیں ہیں اسی طرح کوئی دو شخص بھی بالکل یکساں نہیں
ہیں۔
(۶ ) پانڈے جی پچھتاؤ گے، وہی چنے کی کھاؤ
گے :
جب کوئی شخص ضد میں کسی کام سے
انکار کر دے لیکن بعد میں مجبور ہو کر اس پر بصد اکراہ راضی ہو جائے تو یہ
کہاوت کہی جاتی ہے۔اس کہاوت سے ایک کہانی منسوب ہے کہ ایک پنڈت جی کو چنے کی روٹی
اور دال سخت ناپسند تھے۔ ایک دن جب بیوی نے ان کے سامنے چنے کی دال اور روٹی رکھی
تو پنڈت جی نے کھانے سے انکار کر دیا۔بیوی نے سمجھایا کہ ’’گھر میں اس وقت
اور کچھ پکا نے کو نہیں ہے۔‘‘ لیکن وہ نہ مانے اور غصہ میں
بھنائے ہوئے گھر سے نکل گئے۔ شام تک بھوک نے اتنا برا حال کر دیا کہ ہار کر
گھر واپس آئے اور خاموشی سے کھانے کی چٹائی پر بیٹھ گئے۔ بیوی مطلب سمجھ گئی
اور اس نے دال روٹی ان کے سامنے رکھ دی۔ پانڈے جی نے بحالت مجبوری اسی سے پیٹ کی
آگ بجھائی۔
No comments:
Post a Comment