Saturday 25 March 2017

حضرت حضرت طلحہؓ کی داستانِ زندگیHazrat Talhah r a , Islamichistory,


حضرت حضرت طلحہؓ کی داستانِ زندگی

 بھی خوب ہے کہ آپؓ سرزمین بُصریٰ میں تجارتکے سلسلے میں گئے ہوئے تھے کہ وہاں انھیں ایک اچھا راہب ملا۔ اُس نے آپؓ کو بتایا کہ جس نبی کے بارے میں انبیاء نے خبر دی ہے اس کا ظہور حرم کی زمین میں ہوگا اور اس کاوقت آگیا ہے۔ یہ سن کر طلحہؓ کو فکر لاحق ہوئی کہ کہیں وہ اس قافلہ میں شامل ہونے سے نہ رہ جائیں کیونکہ یہ ہدایت و رحمت اور نجات کا قافلہ ہے۔پھر کئی ماہ بعد جب آپؓ واپس اپنے شہر مکہ آئے تو اہل مکہ کے اندر کچھ اشتعال پایا۔ آپؓ جب بھی کسی شخص یا گروہ سے ملتے، تو انھیں اس وحی کے بارے میں باتیں کرتے پاتے جو جناب محمدؐ پر نازل ہوئی تھی۔ حضرتطلحہؓ نے سب سے پہلے حضرت ابوبکرصدیقؓ کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ تھوڑی دیر پہلے ہی اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ سفر سے واپس آئے ہیں اور ایک فرمانبردار و مطیع مومن کی حیثیت سے حضرت محمدﷺ کے ساتھ کھڑے ہیں۔حضرت طلحہؓ نے اپنے دل میں کہا: محمدؐ اور ابوبکرؓ؟ اللہ کی قسم یہ دونوں کبھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہو سکتے! حضرت محمدﷺ عمر کے چالیسویں برس کو پہنچ چکے ہیں اور ہم نے اس دوران ان سے ایک بھی جھوٹ نہیں سنا۔ کیا وہ آج اللہ کے بارے میں جھوٹ کہیں گے کہ اللہ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اور میرے اوپر وحی نازل کی ہے؟حضرت طلحہؓ فوراً حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھرکی طرف چل پڑے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت طلحہؓکے درمیان کوئی زیادہ دیر گفتگو نہیں ہوئی تھی کہ رسول اللہﷺ سے ملاقات اور آپؐ کے اِتباع کے شوق کی رفتار حضرت طلحہؓ کے دل کیدھڑکن سے بھی تیز ہو چکی تھی۔حضرت ابوبکرؓ نے ان کو ساتھ لیا اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں آگئے۔ جہاں حضرت طلحہؓ مسلمان ہو کر قافلۂ ایمان میں شامل ہو گئے اوراوّلین مسلمانوں میں شمار ہونے لگے۔ حضرت طلحہؓ اپنی قوم میں اپنے مقام و مرتبہ، دولت کی فراوانی اور منافع بخش تجارت کا مالک ہونے کے باوجود قریش کی تعذیبات کا شکار ہوئے۔ جب انھیں اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کو نوفل بن خویلد کے حوالے کیا گیا جس کو’’قریش کا شیر‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو سزا میں مبتلا کیے ہوئے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ قریش کو اپنے اس عمل پر شرمندگی کا احساس ہوا اور اس کے انجام کا خوف بھی لاحق ہوگیا۔جب مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا تو حضرت طلحہؓ بھی مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ پھر رسول اللہﷺ کے ساتھ سوائے غزوۂ بدر کے ہر غزوہ میں شریک رہے۔ غزوۂ بدر میںآپؓ اس لیے شریک نہ ہو سکے تھے کہ رسول اللہﷺ نے آپؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کومدینہ سے باہر کسی مہم پر بھیجا ہوا تھا۔جب وہ مہم سر کرکے واپس مدینہ آئے تو نبیﷺ اور صحابہؓ غزوۂ بدر سے واپس آ رہے تھے۔ ان دونوں اصحاب کو دلی صدمہ ہوا کہ وہپہلے ہی غزوہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شرکت کرنے کے اجر سے محروم رہ گئے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے یہ خبر دے کر انھیں مطمئن کردیا کہ جنگ لڑنے والوں کی طرح ان کوبھی پورا پورا اَجر ملے گا بلکہ رسول اللہﷺ نے انھیں بھی مالِ غنیمت میں اسی قدر حصہ دیا جس قدر جنگ میں شرکت کرنے والوں کو دیا تھا۔اب غزوۂ اُحد آیا کہ قریش کی پوری طاقت اور شدت بروئے کار آئے جس طرح وہ یومِ بدر کو جوش میں آئی تھی تاکہ مسلمانوں کو آخری شکست سے دوچار کرکے نیست و نابود کردیا جائے۔سب کچھ پیس کر رکھ دینے والی جنگ فوراً شروع ہو گئی جس نے زمین کو اپنی المناک لپیٹ میں لے لیا اور مشرکین کی بدبختی آگئی۔ مسلمانوں نے جب دیکھا کہ کفار اپنا اسلحہ پھینک کر بھاگ کھڑے ہوئے ہیں توپہاڑی درے پر موجود تیرانداز اپنی جگہوں سےنیچے اتر آئے تاکہ غنائمِ جنگ لوٹ سکیں۔ اُدھر قریش کا لشکر اچانک پیچھے سے حملہآور ہوا اور عنانِ جنگ اپنے ہاتھ میں لے لی۔پھر جنگ نئے سرے سے اپنی شدت و سختی اور ہولناکی کے ساتھ شروع ہو گئی۔ اس اچانک حملہ نے مسلمانوں کی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔ حضرت طلحہؓ نے اُدھر نظر ڈالی جہاں رسول اللہﷺ کھڑے تھے۔ دیکھا کہ آپؐ شرک و کفر کی قوتوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ حضرت طلحہؓ تیزی سے رسول اللہﷺ کی جانب چلے اوراس فاصلے کو عبور کرنے لگے۔ ایک ایسا فاصلہ جس میں دسیوں زہرآلود تلواریں اور جنون زدہ نیزے لہرا رہے تھے۔ حضرت طلحہؓ نے دُور سے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کے رخسارِمبارک سے لہو بہہ رہا ہے اور آپؐ سخت تکلیف میں ہیں۔ یہ صورتِ حال حضرت طلحہؓ کو کھا گئی اور آپؓ نے ہولناک فاصلے کو چند چھلانگوں میں ہی طے کر ڈالا جبکہ مشرکین کیچھائیں چھائیں کرتی تلواریں رسول اللہﷺ کو حصار میں لیے ہوئے تھیں اور آپ ﷺ کو کاری ضرب لگانا چاہتی تھیں۔حضرت طلحہؓ اس خوفناک صورتِ حال میں رسول اللہﷺ کے لیے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے۔ آپؓ اپنے دائیں بائیں بوٹیاں اڑانے والی تلوار کے وار کر رہے تھے۔ آپؓ نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کا خون بہہ رہا ہے اور آپؐ کیتکلیف بڑھ رہی ہے تو آپﷺ کو سہارا دیا اور اس گڑھے سے باہر نکالا جس میں آپؐ کا پائوں پھسل گیا تھا۔آپؓ اپنے بائیں ہاتھ اور سینے سے رسول اللہﷺ کو سہارا دیے ہوئے تھے اور محفوظ مقام پر لے جا رہے تھے ساتھ ساتھ اپنے دائیں ہاتھ سے تلوار بھی چلا رہے تھے اور ان مشرکوں سے لڑ رہے تھے جو رسول اللہﷺ کو گھیرے ہوئے تھے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں : ’’جب اُحد کے روز کا ذکر کیا جاتا تو حضرت ابوبکرؓ فرمایا کرتے تھے یہ دن تو سارے کا سارا طلحہؓ کا تھا۔ میں پہلا شخص تھا جو نبیﷺکے پاس آیا تو آپؐ نے مجھے اور ابوعبیدہؓ بن جراح سے فرمایا: اپنے بھائی کی حالت کو دیکھو! ہم نے دیکھا تو طلحہؓ کے جسم پر نیزے، تلوار اور تیر کے ۸۰ کے قریب زخم تھے۔ان کی ایک انگلی بھی کٹ گئی تھی۔ پھر ہم نے ان کی مرہم پٹی کی۔‘‘حضرت طلحہؓ تمام غزوات میں اگلی صفوں میں ہوا کرتے تھے۔ آپؓ پرچمِ رسولﷺ پر قربان ہو کر اللہ کی رضامندی چاہتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد حضرت طلحہؓ مسلمان جماعت کے وسط میںزندگی گزارنے لگے۔ عبادت گزاروں کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے رہے اور مجاہدین کے ساتھجہاد فی سبیل اللہ میں مصروف رہے۔ مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر دین کی بنیادیں مضبوط کرتے رہے۔ جو دین اس لیے آیا تھا کہ انسانیت… ساری کی ساری انسانیت… کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لے آئے۔ جب آپؓ ربّ کا حق ادا کر لیتے تو پھر اللہکا فضل تلاش کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے۔ اپنی منافع بخش تجارت اور سودمند کاروبار میں مصروف ہوجاتے۔حضرت طلحہؓ بہت زیادہ دولت مند اور اہل ثروت مسلمانوں میں سے تھے۔ آپؓ کی ساری دولت وثروت اس دین کی خدمت کے لیے وقف تھی جس کا علَم آپؓ نے رسول اللہﷺ کی معیت میں اٹھا رکھا تھا۔ آپؓ اس دولت سے بے حساب خرچ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپؓ کی اس دولت کوبے حساب بڑھاتا تھا۔ رسول اللہﷺ نے بے انتہا جودوسخا کی بنا پر آپؓ کو طلحہ الخیر، )سراپا خیر طلحہ(، طلحہ الجود )سراپا سخاوت طلحہ( اور طلحہ الفیاض )بحر سخاوت طلحہ ( کا نام دے رکھا تھا۔ آپؓ کی دولت سے ایکمرتبہ جو چیز نکل جاتی اللہ اس کو کئی گنا بڑھا کر انھیں واپس کرتا۔ آپؓ کی اہلیہ سُعدیٰ بنت عوفؓ بیان کرتی ہیں ’’ایک روز میں طلحہؓ کے پاس گئی، میں نے انھیں غمگین دیکھا تو انسے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ غمگین کیوں ہیں؟‘‘انھوں نے جواب دیا ’’میرے پاس جومال ہے وہ بہت زیادہ ہو گیا ہے یہاں تک کہ اس نے مجھے تکلیف دہ پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔‘‘ میں نے ان سے کہا’’ تو پھر کیا ہوا اس کو تقسیم کردیں۔‘‘ وہ اٹھے اور لوگوں کو بلا کر ان میں دولت تقسیم کرنے لگ گئے یہاں تک کہ اس دولت میں سے ایک درہم بھیباقی نہ رہا۔‘‘ ایک بار حضرت طلحہؓ نے اپنی ایک زمین بہت زیادہ قیمت پر فروخت کی۔ جب دولت کے ڈھیر کو دیکھا تو ان کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور کہنے لگے ’’وہ شخص جس کے گھرمیں اس مال کو ایک رات گزر جائے اسے نہیں معلوم کہ راتوں رات اسے کس قدر اللہ کے بارےمیں دھوکے میں ڈال دیا جائے۔‘‘پھر انھوں نے اپنے کچھ دوستوں کو بلایا اور ان سے یہ مال اٹھوا کر مدینہ کی گلیوں، شاہراہوں اور گھروں میں جا کر تقسیم کرنے لگے یہاں تک کہ اِدھر صبح ہوئی اور اُدھر ان کے پاس کوئی درہم نہ رہا۔ حضرت جابر بنعبداللہؓ ان کی جودوسخا کا حال بیان کرتے ہوئےکہتے ہیں ’’میں نے طلحہؓ بن عبیداللہ کے علاوہ کسی آدمی کو نہیں دیکھا جوبغیر مانگے اس قدر مال عطا کرتا ہو۔‘‘ حضرت طلحہؓ اپنے اہل و عیال اور اقرباء کے ساتھ بہترین سلوک کرنے والوں میں سے تھے۔ آپؓ ان لوگوں کی کثرتِ تعداد کے باوجود ان کی کفالت کرتے۔ اس سلسلہ میں آپؓ کے بارے میں کہا گیا ہے:’’بنی تیم کے کسی گھرانے کا کوئی سرپرست ایسا نہیں جس کی وہ ضروریات پوری نہ کرتے ہوں اور اس کے عیال کا خیال نہ رکھتے ہوں! آپؓ بنی تیم کی بیوائوں کی شادیوں کا انتظام کرتے اور لوگوں کے تاوان اداکرتے۔‘‘ حضرت سائب بن یزیدؓ کہتے ہیں ’’میں سفر و حضر میں طلحہؓ بن عبیداللہ کے ساتھ رہا ہوں۔ میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو طلحہؓ سے زیادہ درہم و دینار اور لباس و طعام کی سخاوت کرنے والا ہو۔‘‘خلافتِ عثمانؓ میں فتنہ رونما ہوا تو حضرت طلحہؓ، حضرت عثمانؓ کا محاسبہ کرنے والوں کی تائید کررہے تھے۔ اگر انھیں معلوم ہوتا کہ یہ فتنہ اس افتراق و انتشار اور انتہا و انجام تک جا پہنچے گا تو وہ اس کے سدِباب کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کے ساتھ وہ صحابہؓ بھی ہوتے جنھوں نے اس تحریک کی ابتدا میں محض اس لیے تائید کی تھی کہ یہ دبائو اور محاسبے کی ایک تحریک ہے اور اس سے زیادہ اس کی حیثیت کچھ نہیں۔تاہم حضرت عثمانؓ کے محاصرہ اور پھر مظلومانہقتل کے بعد حضرت طلحہؓ کا یہ مؤقف تبدیل ہو گیا۔ حضرت علیؓ نے مدینہ میں مسلمانوں سے بیعت لی تو حضرت طلحہؓ و حضرت زبیرؓ ان لوگوںمیں شامل تھے۔ پھر دونوں بزرگوں نے حضرت علیؓ سے عمرہ کی ادائی کے لیے مکہ جانے کی اجازت طلب کی اور مکہ چلے گئے۔ وہاں سے بصرہ چلے گئے۔ جہاں پر حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے بہت سی قوتیں جمع تھیں۔ یعنی اس جنگ جمل کی سرزمین جس میں حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے والے لشکر اور حضرت علیؓ کے حامیوں کا آمنا سامنا ہوا۔ یہ جنگ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا حصہ ہے جس کی کبھی صفائی نہیں دی جا سکی۔ اپنی اپنی محبت اور رائے پر شدید اصرار نے مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا دیا۔ اس جنگ میں سازشیوں اور اپنوں کی غلطیوں سے اُمت کےبڑے ہی قیمتی لوگوں کی جانیں گئیں۔ حضرت طلحہؓ کو جیسے ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا انھوں نے اس ماحول سے نکلنے میں دیر نہیں لگائی۔حضرت علیؓ نے جب اُمّ المؤمنین حضرت عائشہؓ کو اپنے ہَودَج میں بیٹھے اس لشکر کی قیادت کرتے ہوئے دیکھا جو جنگ کے لیے آرہا تھاتو رو پڑے۔ کچھ دیر بعد انھوں نے رسول اللہﷺ کے ۲ حواریوں حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓکو لشکر کے وسط میں دیکھا تو دونوں کو لشکر سے باہر آنے کے لیے کہا۔ یہ دونوں حضرات باہر آئے توحضرت علیؓ نے حضرت طلحہؓکو مخاطب کرکے کہا ’’اے طلحہؓ! تو رسول اللہﷺ کی بیوی کو ساتھ لے کر لڑائی کے لیے نکلا ہے اور اپنی بیوی کو گھر میں بٹھا رکھا ہے؟‘‘پھر حضرت زبیرؓ سے کہا : ’’اے زبیرؓ ! میں تجھے قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تجھے وہ دن یاد ہے جب تیرے پاس سے رسول اللہﷺ گزرے تھے اور ہم فلاں جگہ پر تھے اور آپؐ نے تجھ سے فرمایا تھا: اے زبیرؓ! کیا تو علیؓ سے محبت نہیں کرتا؟ تُو نے کہا تھا: کیا میں اپنے خالہ زاد، عم زاد اور اس شخص سے محبت نہ کروں جو میرے دین پر ہے؟پھر رسول اللہﷺ نے تجھ سے فرمایا تھا’’ اے زبیرؓ! اللہ کی قسم! تو ضرور اس سے جنگ آزما ہوگا جبکہ تو ظلم کر رہا ہوگا۔‘‘حضرت زبیرؓ نے حضرت علیؓ کی یہ بات سن کر جواب دیا ’’ہاں مجھے یاد آگیا ہے! میں تو اسے بھول گیا تھا۔ اللہ کی قسم… میں تم سے اب لڑائی نہیں کروں گا۔‘‘ پھر حضرت زبیرؓ اورحضرت طلحہؓ دونوں اس اندرونی جنگ سے دست بردار ہو گئے مگر اس موقع پر جنگ سے دست برداری انھیں اپنی جانیں دے کر چکانی پڑی۔ حضرت زبیرؓ کو حالتِ نماز میں عمرو بن جرموز نامی شخص نے قتل کر دیا اور حضرت طلحہؓ کو مروان بن حکم نے تیر کے نشانہ پر لے کر زندگی سے محروم کردیا۔حضرت طلحہؓ جنگِ جمل کے روز حضرت علیؓ کے مقابل لشکر میں شریک ہو کر جنگ آزما ہونے کےلیے پابہ رکاب ہوئے، تو آپ ؓ اُمید یہ رکھتےتھے کہ آپؓ کا یہ اقدام حضرت عثمانؓ کے محاسبے پر مبنی ان کے اس پہلے مؤقف کا کفارہ بن جائے گا جو آپؓ کے ضمیر کے لیے کانٹا بن کر رہ گیا تھا۔ آپؓ معرکہ شروع ہونے سے قبل دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے ہیں اور آہو زاری کے الفاظ میں دعاگو ہوتے ہیں تو آپؓ کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آپؓ کہتے ہیں ’’اے اللہ آج مجھ سے عثمانؓ کا بدلہ لے لے کہ تُو مجھ سے راضی ہوجائے۔‘‘حضرت علیؓ نے جب انھیں اور حضرت زبیرؓ کو متوجہ فرمایا تو جناب علیؓ کے الفاظ نے ان دونوں حضرتِ گرامی کے دلوں کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ حق پر ڈٹنے والے اور اس کے لیے لڑنےوالے تھے۔ جونہی انھیں اندازہ ہوا کہ اُن کا قدم درست نہیں ہے اور اللہ کے رسولؐ نے بھی اسی بارے میں فرمایا اور سمجھایا تھا۔ انھوں نے میدان جنگ چھوڑنے کا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کی مگر سازشی عناصر کو ان کا یہ فیصلہ نہ بھایا اور اُنھوں نے دونوں صحابہ کو کچھ ہی دیر بعد زندگی کیقید سے آزاد کر دیا۔ شہادت اُن کے مقدر میں لکھی جا چکی تھی۔اللہ اکبر… شہادت حضرت طلحہؓ کے مقدر میں تھی۔ وہ جہاں بھی واقع ہوتی حضرت طلحہؓ اسے پا کر رہتے اور وہ انھیں پا کر رہتی۔ کیا رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا نہیںتھا ’’یہ وہ شخص ہے جس نے اپنی نذر پوریکر دی ہے اور جس کو یہ بات خوش کرے کہ وہ زمین پر کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھے تو وہ طلحہؓ کو دیکھ لے۔‘‘ شہید نے اپنے عظیم انجام کو پا لیا اور واقعۂ جمل اپنے اختتام کو پہنچا۔ اُم المومنین حضرت عائشہؓ کو احساس ہوا کہ انھوں نے معاملہ فہمی میں عجلت سے کاملیا ہے جس کے باعث مسلمانوں کے ہی ۲ لشکروں کا آمنا سامنا ہوگیا ہے تو اس تصادم سے کنارہ کش ہو کر فوراً بصرہ چھوڑ کر مدینہ چلی گئیں۔ حضرت علیؓ نے پوری عزت و تکریم کے ساتھ انھیں سفر کی تمام سہولیات بہم پہنچائیں۔حضرت علیؓ اور ان کے ساتھی اور وہ لوگ جو انکے خلاف تھے جب شہدائے جنگ کا معاینہ کرچکے تو حضرت علیؓ نے سب کی نماز جنازہ پڑھی۔ جب حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی تدفین سے فارغ ہوئے تو ان دونوں محترم اور جلیل القدر ہستیوں کو عظیم الفاظ میں الوداع کہا۔ حضرت علیؓ کے ان الوداعی کلمات کے آخری الفاظیہ تھے:’’مجھے امید ہے کہ میں، طلحہؓ زبیرؓ اور عثمانؓ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہتعالیٰ نے فرمایا:)’’ان کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کھپٹ ہوگی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میںبھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔‘‘ )الحجر: ۴۷پھر دونوں حضراتؓ کی قبروں پر غم ناک اور محبت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے فرمایا ’’میرے ان کانوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ’’طلحہؓ اور زبیرؓ جنت میں میرے ہمسائے ہوں گے۔‘‘

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)