گیت
جس گھر میں پہلے اندھیرا تھا جس دل کو
دکھ نے گھیرا تھا
قسمت بدلی پُر نور ہوئے
دکھ دور ہوئے، دکھ دور ہوئے
اب پہلی بیرن بات گئی وہ دن بھی گئے وہ
رات گئی
رنجور تھے جو مسرور ہوئے
دکھ دور ہوئے، دکھ دور ہوئے
جیسے دکھ دل نے اُٹھائے ہیں ویسے ہی
سکھ اب پائے ہیں
مختار ہیں جو مجبور ہوئے
دکھ دور ہوئے، دکھ دور ہوئے
چاہت کی جیت ہوئی آخر اب اَن مِٹ پیت
ہوئی آخر
سکھ امرت سے مخمور ہوئے
دکھ دور ہوئے، دکھ دور ہوئے
(گیت ہی گیت)
٭٭٭
No comments:
Post a Comment