پاس کی دوری
منتظر ایک ہی لمحے کی تھیں دونوں روحیں
ابتدا دور ہوئی، دور بہانے، شوخی
دور۔۔ سیارے خراماں تھے فلک پر، دونوں
ایک منزل پہ پہنچنے کے لیے
پھر پرانا وہی افسانہ، وہی سیب کی،
انجیر کی بات
لرزشِ قلب سے رفتار کی تیزی لپٹی
تیز طوفان سے ملنے چلی خوں کی گردش
جیسے کاجل سی گھٹا ساون کی
وحشیانہ سی اُمنگیں لائے
جسم کے ساز میں سب تار کھنچے اور پھیلے
نغمہ بیدار ہوا۔۔۔۔
نغمہ بیدار ہوا
نغمہ بیدار ہوا
پُتلیاں پھیل گئیں سانس تھی گہری گہری
آہ،۔۔۔ رقصاں ہوئی نکہت گل کی
اک تڑپ، ایک تھرکتی ہوئی نازک پتی
ہلکی ہلکی سی صدا، چیخ کی دھیمی لہریں
خلوتِ شب کی فضا میں ہوئیں سرگرمِ خرام
اور پھر آ ہی گئی نیند کی خاموش پری
صبح دم جیسے ہوا گال سے چھو جائے کبھی
ایک شاداب سکوں روح پہ چھایا، اس دم
دل میں بھرپور تھی احساس کی شیریں نرمی
(تین رنگ)
٭٭٭
No comments:
Post a Comment