انجانے
نگر من مانے تھے
من
مانے نگر انجانے رہے
اپنی
باتوں کی مستی میں سنتے رہے دل کی بستی میں
وہی
گیت جو کچھ من مانے رہے
وہی
راگ جو سکھ کے بہانے رہے
راتیں
بیتیں دن بیت گئے راتیں بھی نئی پھر دن بھی نئے
مُورکھ
من ایسا ہٹیلا ہے
اسے
یاد وہ رنگ پرانے رہے
انہونی
کا جسے دھیان رہا ہونی نے اسے چپکے سے کہا
نہ
وہ باتیں رہیں نہ زمانے رہے
جو
رہے بھی تو باقی فسانے رہے
اب
گیت میں رس ٹپکاتے ہیں یوں دل کی آگ بجھاتے ہیں
اب
سب کے لئے وہی باولے ہیں
جو
بیتے سمے میں سیانے رہے
(تین رنگ)
٭٭٭
No comments:
Post a Comment